Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہٹلر بھی اسرائیل کے قیام کی کوششوں میں شریک

می محمد الشریف ۔ مکہ
نازی ازم اوراس کے قائد اعلیٰ ہٹلر کے حوالے سے ہالو کوسٹ کا واقعہ زبان زدو عوام و خواص ہے۔ اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہٹلر نے برسر اقتدار آتے ہی یہودیوں کے خلاف بھیانک اجتماعی قتل عام شروع کردیاتھا۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہٹلر نے شروع میں کم خونی حل یہودیوں کو دیاتھا۔ ہٹلر نے صہیونی تحریک کیساتھ معاہدہ کیا تھا کہ یہودیوں کو جرمنی سے فلسطین منتقل ہونے میں سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ جہاں تک بیخ کنی والے قتل عام کے واقعات کا تعلق ہے تو اسے ”آخری حل “ کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ اسکا آغاز 1941ءمیں ہوا تھا اور اختتام 1945ءمیں جاکر ہوا تھا۔ 
ہٹلر نے جرمن چانسلر کی حیثیت سے 1933ء میں ”ہوارا معاہدہ“ کے نام سے صہیونیوں کی یہودی ایجنسی اورجرمن نازی کے درمیان سمجھوتے پر دستخط کئے تھے ۔ اس کے تحت یہودیوں کو جرمنی سے فلسطین منتقل ہونے کی بابت سہولتیں دی گئی تھیں۔ نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ جرمنی چھوڑنے والوں کو اپنے اثاثوں سے سرکاری خزانے کے حق میںدستبرداری دینا ہوگی۔ اس معاہدے کے بموجب نازی جرمن کی ایک ٹیم اور جرمنی میں صہیونی آرگنائزیشن کے ایک گروپ نے کئی ماہ تک فلسطین کا دورہ کیا اور فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو آباد کرنے کے تصور کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ جائزے کی کامیابی کے بعد نازی ٹیم میں شامل ملٹ آئن اسٹائن نے کئی مضامین شائع کئے جس میں اس نے صہیونی تحریک اور پیشرو یہود آباد کاروںکے یہاں اسپورٹس کے جذبے کو سراہا۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ فلسطین میںیہودیوں کا قومی وطن قدیم زخموں پر مرہم لگانے جیسا ہوگا۔
جرمن حکومت نے نہ صرف یہ کہ صہیونی تنظیموں کو نقل مکانی کی اجازت دی ۔ اس نے جرمنی میں اس مقصد کو آسانی سے حاصل کرنے کیلئے عطیات جمع کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔6برس کے دوران 5لاکھ سے زیادہ جرمن یہودی فلسطین منتقل ہوئے جو اسوقت منتقل ہونے والے یہودیوں کا 25فیصد تھے۔ امریکن مصنف ایڈون بلاک نے اپنی تصنیف نقل مکانی کے معاہدے میں جس عظیم تعاون کا تذکرہ کیا ہے وہ اس پر مستزاد ہے۔ انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ نقل مکانی کے معاہدے میں مالیاتی دفعات کے تحت نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کو اپنا سرمایہ جرمن زرعی آلات خرید کر منتقل کرنے کا موقع دیا گیا۔آخر میں انہیں اپنا سرمایہ فلسطینی بینکوں میں منتقل کرنے کی آزادی دی گئی۔ حاصل کلام یہ کہ نازی حکومت نے محدود عرصے میں صہیونی یہودی ایجنسی کا بجٹ سو ملین ڈالر سے زیادہ بڑھا دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نازی ازم اور صہیونی ازم دونوں ایک سکے کے دو رخ ہیں ۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: