Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باغبانوں نے چمن کی سب بہاریں لوٹ لیں

تسنیم امجد۔ریاض
ایسا معاشرہ جہاں انصاف نا پیدہو،عوام دہا ئیو ں سے نا انصا فی کی چکی میں پس رہے ہو ں،فکر و خیال کی آ زادی برائے نام ہو، قدم قدم پر غلط بیانی ہو ، داد رسی کی گنجا ئش نہ ہو اور قا نون دور دور تک نظر نہ آ ئے وہاں دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر پر حیرانی نہیں ہو گی۔ یہ تو حالات کی عکاسی کر رہی ہے ۔
سیاسی جماعت ،عوام اور انتخابات ایک ایسی مثلث ہے جس کے شفاف ہو نے سے جمہو ریت کا ا صل رنگ نکھر تا ہے اور فلا حی مملکت کا صحیح وجود سا منے آ تا ہے ۔جمہور سے مراد عوام یعنی لوگ ہیںگویا عوام جمہوریت میں خود ہی حکو مت کرتے ہیں۔آج کی بڑی بڑی مملکتو ںاور آ بادی کی وجہ سے ایک نمائندہ ادارہ بنانا نا گزیر ہے ۔اس کو بنانے کے لئے شفا فیت ضروری ہے ۔افسوس تر قی پذ یر مما لک کے عوام اس شعور سے بے بہرہ ہیں ۔انہیں پیٹ کی فکر سے ہی چھٹکارا نہیں ملتا تو کچھ اور کیا سو چنا ہے ۔اسی لئے وہ دباﺅ میں آ کر اپنی سوچ و شعور کو دوسروں کی مر ضی کے تا بع کر دیتے ہیں۔جمہوریت میں پا رٹی بازی اس قدر ہو تی ہے کہ بغیر اہلیت دیکھے نشستو ں کو بھرنے کے لئے ایڑی چو ٹی کا زور لگادیا جا تاہے ۔اس خامی کے پیش نظر علامہ اقبال نے کہا تھاکہ :
جمہو ریت اک طر ز حکومت ہے کہ جس میں
بندو ں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کر تے
کاش سیاسی جما عتیں مخلصانہ رویہ ا ختیار کریں اور ملک کو انتشار اور دھڑے بندیوں سے محفوظ رکھیں ۔ان کی ہی اولین ڈیو ٹی عوام کو سیاست کی اصل رو ح سے آ شنا کرنا ہے ۔نما ئندگان کو اپنی دھواں دھار تقا ریر کے ذریعے اپنی ا صل شکل دکھا نی چا ہئے۔عوام کودھو کہ نہیں دینا چا ہئے لیکن کمزور جما عتی نظام فرا ئض کو بھلا دیتا ہے اور صرف اقتدار کی طلب ہی سا منے رہتی ہے ۔ان کے سا منے ملک و قوم کے مفاد کو قربان کر نا کو ئی حقیقت نہیں رکھتا ۔رہا قا نون اور ضا بطہ ا خلاق تو وہ گیا بھاڑ میں۔
مسلمانوں کی تا ریخ گواہ ہے کہ ان کی سچائی و جوا نمردی کے قائل دشمن بھی تھے ۔قیام پاکستان بھی کو ئی آ سان نہیں تھا۔ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال کو داﺅ پر لگا کر ہمیں آ زادی کی نعمت سے نوا زا ،جسے ہم بھو ل چکے ہیں۔اسی لئے اس کی قدر نہیں کرتے۔آج ہم جس مقام پر پہنچے ہیں ،اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ذا تی مفاد نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا ۔سیاسی جما عت کے اراکین کو خرید لیا جا تا ہے۔ بیلٹ بکس میں قوم کا مستقبل بند ہو تا ہے ۔انتخابات پر بے دریغ رقم صرف کرنے کی کیا وجہ ہے ۔رشوت کے کیا معنی ہیں ۔کاش ہم ” گڈ گورننس“ یعنی اچھی حکمرانی کے معنی سمجھ سکیں جس کے مطا بق ریا ستی امور اور حکومت کا کا رو بار ا حسن طریقے سے سر انجام دیا جاتا ہے ۔غیر ذمہ داری کی صو رت میں احتساب ضروری ہو تا ہے ۔انسانی حقوق کا تصور جو دینِ اسلام نے دیا ہے ،اس کو ہی مد نظر رکھا جائے تو کسی قسم کی د ھو کہ دہی و لا لچ کا سوال ہی نہ رہے ۔ہمارے عوام میں قنا عت نہیں ۔مقا بلے بازی کا ر حجان ہے۔ ہم یہ نجانے کیوں نہیں سمجھتے کہ اللہ کریم نے بنیا دی ضرو ریات پو ری کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔
ایما ندار بھی اب اتنی ا خلا قی جر ا¿ ت نہیں رکھتے کہ برائی کو روکیں ۔اگر کچھ لو گو ں نے ملک و اقتدار کو اپنی جا گیر سمجھ لیا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔کیا ہم یہ نہیں سو چتے کہ یہی قتل و غارت، دھو کہ دہی آزادی سے قبل تھی جس سے نجات کے لئے ہی ہمارے آباءو اجداد نے قربا نیا ں دی تھیں۔ اللہ تعا لیٰ نے ہمیں شعور کی دولت سے نوا زا ہے ۔ہم سب سمجھتے ہیںلیکن طلب و لالچ کا کیا کیا جائے جس نے عقلوں پر پر دے ڈال دیئے ہیں ۔با غبا نوں نے چمن کی سب بہا ریں لو ٹ لیں لیکن ان کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی ۔میڈیا عمو ماً تر بیت کا ذریعہ ہو تا ہے لیکن ہم نے اسے صرف تفریح بنا ڈالا ۔اس طرح آ نے والی نسلوں کا بگا ڑ بہت بڑا نقصان ہے ۔کاش ہر ادارہ و فرد اپنے حصے کا فر ض ادا کرنا سیکھ جا ئے ۔انسان جہا ں شب و روز گزارتا ہے اس کی ہر شے سے اسے محبت ہو جاتی ہے ۔یہی حب ا لوطنی کہلاتی ہے ۔اس کا وجود اب نظر نہیں آ رہا ۔افسوس جو بھی آ تا ہے خود کو دودھ سے دھلا ثابت کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔اس کی سفیدی جلد پہلے ہی انتخاب کے بعد اس وقت ظا ہر ہو جا تی ہے جب وہ اسمبلیو ں میں ایک دو سرے پر کیچڑ اچھا لنے کے سوا کچھ نہیں کرتے ۔عوام جو آ ج اپنے انتخاب پر شرمندہ ہیں، کل پھر وہی کریں گے اور ویسے ہی پیا رو ں کو اقتدار کی کر سی پیش کر دیں گے ۔
ہمیں خود اپنے ا حساس کو جھنجو ڑنا ہے ۔ملک کی محبت کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے، نہ کہ ذا تی مفاد کو ۔ہم انفرادی طور پر عجیب بے چینی کا شکار ہیں ۔اگر یکجہتی کا دا من تھا م لیں تو کو ئی مضا ئقہ نہیں کہ ہمارے مسا ئل حل نہ ہوں ۔ہمیں اپنے ووٹ کی قدر و قیمت کا اندا زہ ہو نا ضروری ہے۔ یہ بہت قیمتی ہے ۔ہمارے بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ ” ایک کا فر مگر منصف حکمران ،مسلمان مگر ظالم حکمران سے بہتر ہے“ڑ
احتساب و توا زن کا عمل حکمران و انتظامیہ کو راہ راست پر لانے کے لئے اہم کر دار ادا کر تا ہے ورنہ استبدادی اور ظالمانہ حکو مت ہمارے سروں پر سوار رہے گی ۔ہمارے آباءاسی پر عمل کرتے تھے اسی لئے عوام کو شکا یات کا مو قع نہ ملتا تھا ۔آج وقت کی پکار ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔اس طر ح بہکا وے سے بچ سکیں گے خوا ہ کتنا ہی بڑا سیاستدا ن کیو ں نہ ہو ۔دین کو جا نتے ہو ئے اس سے رو گر دا نی خود اپنے لئے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اسی لئے ہم پستی کی جا نب جا رہے ہیں ۔وسا ئل کے ہو تے ہو ئے بھی ان سے استفا دہ نہیں کر پاتے ۔اب بھی وقت ہے ،اپنے اندر ایک اچھے شہری کی خو بیا ں تلاش کرنے کا۔کمی بھی پو ری ہو سکتی ہے ۔یہ انسان کی اپنی لگن اور چاہت پر منحصر ہے ۔ان خو بیو ں کا بھی یہا ں ذکر کرتے جائیں:
ذہا نت ،ضبطِ نفس ، دیا نت ،سیا سی و معا شرتی شعور ، حب ا لوطنی ،فرا ئض سے آ گا ہی ،قا نون کا ا حترام ،ا حساسِ ذمہ داری ،خود اعتمادی اورحصول تعلیم کی لگن ۔ہم پر اپنے خاندان ،معا شرے اور ریا ست کی طرف سے بہت سی ذمہ دا ریا ں عا ئد ہو تی ہیں ۔خاندان میں افراد خانہ کی ضروریات پو ری کرنے کے پا بند ہیں تو ریاست و معاشرے میں دوسروں کے ہم رکاب تر قی کاسفر کرنا بھی ایک ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس احساس سے عاری رہیں تو مسا ئل ہی مسائل را ستہ رو کیں گے ۔خو شحالی مل جل کر ذمہ دار یا ں با نٹنے میں ہے۔اسی طر ح ایک ذمہ دار معا شرہ تشکیل پاتا ہے ۔عوام کو سیا سی آ گہی کی ضرورت ہے ۔اس کے لئے سیاسی جما عتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھر پور حصہ لینا ہو گا ورنہ پھر وہی لوگ بر سرِ اقتدار ہو ں گے جنہو ں نے وطن کا خون پینے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی اور ہم یہی کہتے رہ جا ئیں گے کہ:
ہم درد سنا ئیں تو سنا ئیں کسے دل کا
سن سکتے ہیں جو درد وہ انجان بہت ہیں
تر قی یا فتہ ممالک میں یہ طریقہ را ئج تھا کہ عوام کے پاس ” باز طلبی“ یعنی ”ری کال“ کا حق تھا ۔اس کی بدولت منتخب نما ئندے کو اس کی میعاد ختم ہونے سے پہلے اس کے خلاف عدم اعتماد کر کے پا ر لیمنٹ کی رکنیت سے بر طرف کر سکتے تھے۔اس کا اطلاق آ ج بھی کہیں کہیں ہے ۔ہمارے ملک میں اس کی اشد ضرورت ہے ۔اس طرح نمائندے کی رکنیت خطرے میں ہونے سے اس کی کار کردگی یقینا بہتر ہو گی ۔
پاکستان ایک نظر یاتی مملکت ہے ۔یہاں انفرادی کا وشو ں کا جمود منا سب نہیں۔کو ششو ں میں خلو ص شامل ہو گا تو بد حالی بھاگ جا ئے گی ،ان شا ءاللہ۔
 

شیئر: