Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی اسمگلنگ کا کوئی حل ہے؟

لیبیا کے ساحل کے پاس بحیرہ روم میں مختلف کشتیوں میں پھنسے ایک ہزار مہاجرین شدید مشکلات کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف جرمن امدادی جہاز جس پر 230مہاجرین سوار ہیں کسی یورپی بندرگاہ پر لنگر اندازہونے کے لئے اجازت ملنے کا منتظر ہے۔
مہاجرین کا یہ مسئلہ گزشتہ 5برسوں سے دنیا کیلئے ایک مصیبت بنا ہوا ہے اور کوئی بھی متعلقہ ملک مسئلے کو حل کرنے کیلئے آگے نہیں آرہا۔ ان مہاجرین کا تعلق پسماندہ ملکوں سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ممالک انسانی اسمگلروں کو کیوں نہیں پکڑ پاتے جو سادہ لوح لوگوںسے رقم ہتھیاکر اپنے خزانے بھر رہے ہیں اور جبکہ ان مہاجرین کو سمندر کی بے رحم موجوںکے حوالے کرکے چین کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ کیوں ان ڈاکوﺅں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ یہ وہ ڈاکو ہیں جو انسانوں کے دشمن ہیں۔ جنہیں صرف پیسے سے پیار ہے اور وہ پیسے کیلئے اپنا مذہب اور انسانیت بیچ رہے ہیں۔ ان بیچاروں کو ربر کی کشتیوں میں سمندر میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ کشتیاں بپھرے سمندرمیں کچھ دور جاکر ڈوب جاتی ہیں۔ اب تک ہزاروں مہاجرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انسانی اسمگلرز تو یہی چاہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی واپس آکر اپنی بپتا سناکر انکی پول نہ کھول سکے۔ یہ مہاجر اچھی اور بہتر زندگی کی آس میں یورپ جانے کیلئے اپنی زندگیوں کو داﺅ پر لگاتے ہیں اور جو ان ملکوں میں پہنچ جاتے ہیں وہاں بھی انہیں دھکے ہی ملتے ہیں اور یوں انکے سارے خواب چکنا چور ہورہے ہیں۔ آخر یہ ممالک بھی کب تک انکا بوجھ برداشت کریں گے۔ مسلسل لوگ منہ اٹھائے چلے آرہے ہیں جو ان ممالک کی معیشت پر بوجھ بن رہے ہیں۔ اٹلی نے تو پہلے ہی مزید مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ جرمنی میں مہاجرین قبول کرنے کے معاملے پر حکومت ، عوام اور اپوزیشن کی طرف سے عتاب کا شکار ہے۔یونان کی معیشت کسی طور پر مہاجر قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یورپی ملکوں کو چاہئے کہ وہ جن جن ملکوں سے مہاجرین آرہے ہیں ان پر زور ڈالے کہ انسانی اسمگلروں کو قرار واقعی سزا دیں اور اپنے سمندروں پر نظر رکھیں تاکہ غیر قانونی طور پر کوئی بھی ملک سے نہ جاسکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: