Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صابر فقیر افضل ہے یا شاکر غنی؟

 مالدار شخص کیلئے شکر افضل ہے اورمفلس وفقیر کے حق میں صبر بڑی اہمیت کا حامل ہے ، کیفیت کے اعتبار سے دونوں برابرکا درجہ رکھتے ہیں
    علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:ایمان کی2شقیں ہیں۔ایمان کا پہلانصف شکرہے اور دوسرانصف صبرسے عبارت ہے۔
    اہل علم کے مابین صابر فقیر اور شاکر غنی کے درمیان تقابلی موازنہ کرنے کے بارے میں اختلاف پایاجاتا ہے کہ ان دونوں میں سے کون افضل وبرتر ہے؟ بعض اہل علم کے نزدیک صحت وعافیت کے عالم میں شکرکی ادا ئیگی ابتلاء وآزمائش کی حالت میں صبرکرنے سے کہیں بہتر اور افضل ہے۔
    اس سلسلہ میںحضرت مطرف بن عبداللہؒ کاقول ہے کہ میں صحت وعافیت اورتندرستی کے عالم میں اللہ کا شکربجالاؤں ،مجھے اس بات سے کہیں زیادہ مرغوب ہے کہ مصائب وآلام میں گرفتار ہوکر اور گردش ایام کی زد میں آکرصبر کروں۔
    اس سے مرادیہ ہے کہ مجھے نعمتوں سے محظوظ ہوتے ہوئے شکرکی توفیق نصیب ہوجائے  یہ میرے لئے اس بات سے کہیں زیادہ مرغوب ومحبوب ہے کہ میں آزمائش وابتلاء کے گرداب میں پھنس کر صبرکروں اسی لئے نبی کریم نے اپنی امت کووصیت کی ہے کہ ہر فرد اللہ تعالیٰ سے عفوودرگزر اورصحت وعافیت کی دعاء مانگا کرے۔ اس موقع سے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے مصائب وابتلاء سے دوچارہونے کی دعاء کرو تاکہ اس پر صبر کرنا پڑے ۔
    بعض علماء کا رجحان ہے کہ ابتلاء وآزمائش کے ساتھ صبر صحت وعافیت کے موقع پر شکر سے بہتر وافضل ہے لیکن دل کو چھوتی ہوئی بات یہ ہے کہ صبروشکر میں سے دونوں کے دونوں موقع ومحل کے اعتبار سے اپنے قرین کے حق میں افضلیت کا مقام رکھتے ہیں۔ اس بنیادپر غنی اور مالدار شخص کیلئے شکر افضل ترین چیز ہے اورمفلس وفقیر کے حق میں صبر کا مرتبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
    حضرت ابوسہل صعلوکی ؒ سے صبر وشکر کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں کون افضل وبرتر ہے؟توانہوں نے برجستہ جواب دیا:دونوں کے دونوں بذات خود اپنی کیفیت کے اعتبار سے برابرکا درجہ رکھتے ہیں یہ اور بات ہے کہ شکرمالداروں کا کام ہے اور صبرتنگ دستوں کی بیساکھی ہے۔
     مصائب وشدائد سے دوچارہونے والے کیلئے صبر وتحمل کے بجائے اس پر اللہ کی شگرگزاری اداکرنے کا عظیم مقام ومرتبہ ہے۔کسی عربی شاعر کا قول ہے جس کاترجمہ یہ ہے:
    ’’میرے نفس کیلئے اس کے مرض کا رازفاش ہوگیا تو اس نے اس کو منظرعام پرلانے سے روگردانی کا رویہ اختیار کیا اور شکر وحمد کا دامن پکڑکراس سے دل کھول کر اپنے شکوے گلے بیان کرڈالے۔‘‘
    حقیقت میں مصیبت وابتلا بھی اپنے پہلو میں نعمت چھپائے ہوئے ہوتی ہے جس کابندے کیلئے شکرادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔امام الحرمین علامہ جوینیؒ فرماتے ہیں:دنیا کے مصائب وشدائد بھی بندے سے شکرکے متقاضی ہواکرتے ہیں۔ بلاشبہ بندۂ مؤمن پر جس کی شکرگزاری لازم ہوتی ہے کیونکہ درحقیقت مصائب وآلام بھی بندے کیلئے نعمت ہی ہواکرتے ہیں بلکہ شدائد ومحن حصول نعمت کی منہ بولتی دلیل ہواکرتے ہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ مصائب وشدائد بندے کے لئے بہت سے فوائد ومنافع کا پیش خیمہ ہوتے ہیں اورحد سے زیادہ اجروثواب کا باعث ہوتے ہیں۔ اس سے بہت سی امیدیں برآتی ہیں اور اس سے بڑے اغراض ومقاصد وابستہ ہوتے ہیں جس کے سائے میں مصائب وشدائد کی سختی ماندپڑجاتی ہے اوراس کی چھاؤں تلے مصائب وآلام کی تپش سردپڑکر کافورہوجاتی ہے ۔
    حضرت شریح  کا قول ہے:جب بھی کوئی بندہ کسی مصیبت وابتلا سے دوچارہوتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اس کو اس کے عوض میں 3 نعمتیں بطورتحفہ نصیب ہوتی ہیں :ایک تو یہ کہ جس ابتلاء ومصیبت سے وہ دوچار ہے وہ اس کے دین وایمان کیلئے نقصان دہ نہیں۔دوسرے یہ کہ وہ اس ابتلاسے بڑھ کر نہیں جس سے وہ دوچار تھااور تیسرے یہ کہ یہ مصیبت تو اس کیلئے مقدرتھی، اسے آج نہیں تو کل پیش آنا ہی تھا اور وہ اللہ کے حکم سے واقع ہوئی اس پر گلہ شکوہ کیسا؟
    بندے کو جب نعمت الٰہیہ کی قدردانی کا یہ گُرنصیب ہوجائے اور وہ نعمتوں ونقمتوں میں پوشیدہ اس راز سے باخبرہوجائے تو خود بخود اس کے اندرشکرالہٰی کا جذبہ موجزن ہوناشروع ہوجاتاہے اور وہ اس بات پر اللہ کا شکربجالاتاہے کہ جومصیبت آنی تھی وہ تو آگئی مگراللہ کا شکر ہے کہ دین وایمان محفوظ اورصحیح سلامت ہے نیزاس کی وجہ سے اس پر کسی قسم کی زد نہیں پڑی اور نہ ہی اس کی بلاخیزی سے اس کے پائے ثبات میں تزلزل آیا۔ یہ مصیبت جتنی ہمہ گیر اور بھیانک تصور کی جارہی تھی اس سے کہیں کم تر ہوکر رونماہوئی۔ اس کے بعدبندہ اس بات پر اللہ کی حمد وثناء بیا ن کرتا ہے اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ مصیبت آئی اورآکر چلی بھی گئی مگر اس کے پائے استقامت کو ذرہ برابر ڈگمگانہ سکی۔ مصیبت کی قدردانی اور اس کی شکرگزاری میں ممدومعاون ثابت ہونے والے وسائل وذرائع میں سے مصیبت سے دوچارہونے کے بعد اس پرمرتب ہونے والے محاسن وفضائل کی معرفت سے آشنائی بھی ہے جیسے اس مصیبت کی پاداش میںحاصل شدہ اجروثواب کی وصولی ودستیابی ہے جس کا تذکرہ اوپر گزرچکاہے۔ اس سلسلہ میں امام غزالی ؒ  فرماتے ہیں:جس شخص کا اس بات پر ایمان نہ ہو کہ مصائب وابتلا سے دوچارہونے کا اجروثواب مصیبت وابتلا کی شدت وتلخی سے کہیں زیادہ میٹھا اور شیریں ہے تو اس شخص سے مصیبت پر شکرادا کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ وہ کبھی بھی شدائد وآلام کے گرداب میں پھنس کر شکر ادانہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں:- - --  -امیر المؤمنین فی الحدیث ، امام بخاری

شیئر: