Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کڑے امتحان کے دن

***سید شکیل احمد ***
امریکہ اب سے چند دن قبل افغانستان میں اپنی فوجی کا رروائیو ں کے جو دعوے کر رہا تھا اب امن مذاکرات کا ڈول ڈال رہا ہے جس کا کوئی مثبت پہلو نکلتا نظر نہیں آرہا کیونکہ ایسے مذاکرات کا پہلے بھی کئی مرتبہ ڈول ڈالا گیا مگر امریکہ کی ہی جانب سے ڈول خالی کھینچ لیا گیا ، تب سے امر یکی طالبان کی نظر میں نا قابل اعتبار ٹھہرے ہیں۔طالبان ہو ں یا افغان عوام یا پھر کوئی دوسرا افغان طبقہ وہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ، افغانستان پر تسلط بزور طاقت جما ئے ہوئے ہیںاور اس نے ان کی آزادی کو سلب کر رکھا ہے چنا نچہ جب تک امریکہ افغانستان میںگھسا بیٹھا رہے گا، افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حالات معمول پر آسکتے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کی جا نب سے جنگ بندی کے اعلا ن کے ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکر ات کی پیشکش ہوئی اور اس میں پا کستان سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنا کر دار ادا کرے ۔طالبان نے فوری طور پرمذاکرات کی دعوت کو رد نہیںکیا اور نہ قبول ۔کا فی سوچ وبچار کے بعد طالبان کی قیا دت کی جانب سے کہا گیا کہ طالبان مذاکر ات کے لیے تیا ر ہیں مگر پہلے غیر ملکی فوجو ں کو افغانستان خالی کر نا پڑے گا ۔امریکہ کے اس بیان پر کہ وہ افغانستان میں امن کا متمنی ہے کہ جو اب میں طابان قیا دت نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جا ئیں تو از خود امن قائم ہو جا ئے گا۔ طالبان کی اس صاف گوئی کا مطلب ہے کہ جب تک افغانستان پر غیر ملکی فوجو ں کا تسلط ہے ا س وقت تک امن کے لیے سوچنا بھی دانش مندی نہیں ۔
  16 بر س بیت گئے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحا دی فوجیں گھس بیٹھی ہیں۔ اس عرصے میں پہلی مر تبہ طالبان کے رویے میں لچک دیکھنے میں آئی ہے ۔عید پر برادرانہ منظر صرف کا بل میں ہی دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ افغانستان کے کئی بڑے چھو ٹے شہر وں میں بھی دیکھنے کو ملا ہے جس کو افغانستان میں قیا م امن کے لیے اہم قر ار دیا جا رہا ہے چنا نچہ ایک خوشگوار فضا قائم ہو تی نظر آئی ہے۔ امن کے بغیر حالات کبھی بھی درست نہیں ہوسکتے۔
اگرچہ عید پر جنگ بند ی کے اعلان سے ایک، دو روز پہلے افغانستان کے صوبے ننگر ہا ر کے مرکز جلال آبا د میں خود کش حملہ کیا گیا جس میں 2درجن سے زائد افر اد جا ن بحق ہو ئے مگر عید کے روز جبکہ جنگ بندی کا اعلا ن ہو چکا تھا ۔جلا ل آباد کے ایک شہر ی جس کا نا م عامر ہے،نے بتا یا کہ طالبان عید کے روز بغیر کسی خوف وہچکچاہٹ کے جلا ل آبا د شہر میں داخل ہوئے۔ شہر یو ں کو ان کی اس طرح آمد پر یقین نہیںآرہا تھا ۔ اس مو قع پر طالبان او ر افغان سیکیو رٹی فورسز کے اہلکا ایک دوسرے سے خند ہ پیشانی سے ملے اور ایک دوسرے کے ساتھ سلفیا ں بھی بنائیں۔ اس سے پہلے جتنی بھی مر تبہ جنگ بندی کا اعلا ن ہو ا ہے، وہ نہ تو کا میا ب ہو ا اور نہ ان اعلا نا ت پر کسی فریق نے بھر وسا کیا ۔یہ صورتحال افغانستان میںپہلی مرتبہ دیکھنے کو ملی ہے۔ اگر آئندہ آگے چل کر ایسی ہی اعتما د کی فضا بر قرار رہتی ہے تو افغانستان میںقیا م امن کے لیے خوشگوار ما حول کے جنم کی امید واثق ہو سکتی ہے ۔
ملا فضل اللہ کی ہلا کت کو دہشت گردی کے خلا ف ایک اہم پیشرفت قرار دیاجارہا ہے ۔پاکستان کا کا فی عرصہ سے افغان حکومت سے مطالبہ تھا کہ تحریک طالبان پا کستان کی قیا دت نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان میں پنا ہ لے رکھی ہے جہاں سے وہ پاکستان کے خلا ف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملو ث ہے اس لئے افغان حکومت اور امریکی فورسز کو اپنی ذمہ داری نبھا نی چاہیے اور افغان سر زمین کو پا کستان کے خلا ف استعمال کر نے نہیںدینا چاہیے ۔مبصرین کی رائے ہے کہ ملا فضل اللہ کے بعد امر یکہ پا کستان سے اس کے بدلے کچھ اپنے مطالبات منو انے کی بات کر ے گا۔ اس بارے میں مختلف قیا س آرئیا ں کی جا رہی ہیں تاہم ان میں سب سے اہم اشارہ اس جانب کیا جا رہا ہے کہ ملا فضل اللہ کی ہلا کت کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھے گا کہ اسی طر ح حقانی نیٹ ورک کو ختم کر نے میں پا کستان کر دار ادا کر ے ۔ گویا جہا ں یہ اطمینا ن بخش بات ہے کہ پاکستان کا دشمن مٹ گیا وہاں امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مزید دباؤ بڑھ جائے گا چنا نچہ آئند ہ چند ہفتے پاکستان کے لیے کئی پہلو ؤں سے آزمائش اور کڑے امتحان کے دن ہیں۔ ایک طر ف پاکستان میں عام انتخابات بھی آزمائش سے کم نہیں کیو نکہ پا کستان کے بعض بااختیار اداروں کی جا نب سے بھی یہ کا وش ہے کہ انتخابات کے نتائج ان کے حق میں رہیں۔ اسی طر ح امر یکہ اور دوسر ی بیر ونی طا قتو ںکی بھی پا کستانی انتخابات پر گہر ی اور ترچھی نظر ہے۔
 

شیئر: