Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارکنگ ا ور پارکنگ

علی الجہلی ۔ الاقتصادیہ
میرے ایک عزیز نے بتایا کہ دمام میں اس نے ایک جگہ گاڑی پارک کی تھی۔ ایک گھنٹے سے زیادہ عرصے تک تلاش کرتا رہا۔ نظر نہیںآئی۔ پتہ چلا کہ کار پارکنگ کا نظم و نسق چلانے والی کمپنی پارکنگ فیس ادا نہ کرنے کے باعث گاڑی اٹھا کر لے گئی۔ پارکنگ فیس 2ریال تھی۔ بعد میں گتھی یہ سامنے آئی کہ میرا عزیز تنہا شخص نہیں جو اس صورتحال سے دوچار ہو ا ہو، دمام شہرمیں مختلف مقامات پر کئی خاندان اسی قسم کی پریشانی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کمپنی کی انتظامیہ یہ نہیں بتاتی کہ اٹھائی جانے والی گاڑی کہاں لیجائی جاتی ہے۔ 
متعلقہ کمپنی کرنسی نوٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ گاڑی پارک کرنے والے پارکنگ فیس ادا کرنے کیلئے دھات کا سکہ تلاش کرنے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ جسے سکہ نہیں ملتا وہ گاڑی اٹھائے جانے کے خدشے کے ساتھ گاڑی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جن کمپنیوں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے، وہ پیشہ ورانہ صلاحیت سے محروم ہیں۔کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ انتظام کا ٹھیکہ لینے والی کمپنی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے پارکنگ فیس وصول کرتی؟ ایسی صورت میں گاڑیو ںکے مالکا ن کو کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہوتی۔ حالیہ ایام میں سکے مطلوبہ شکل میں ہمہ وقت دستیاب نہیں ہوتے۔
یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ اعلیٰ حکام اہم فیصلے کرتے وقت اس بات کو مدنظرنہیں رکھتے کہ جس کمپنی کو جس کام کا ٹھیکہ دیا جارہا ہے وہ اسکی اہل بھی ہے یا نہیں۔ پارکنگ فیس بڑھائی جاسکتی ہے۔ یہ لوگوں کیلئے قابل قبول ہوگی مگر انہیں کرنسی نوٹ ہونے اور سکے نہ ہونے کی سزا کے طور پر گاڑی سے محروم کردیا جائے اور اسے نا معلوم جگہ لیجاکر پھینک دیا جائے، اچھی بات نہیں۔ بہتر ہوگا کہ نئی خدمات اور نئی فیسوں کے نظام کو صارفین کے حالات سے ہم آہنگ کردیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: