Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواب

***جاوید اقبال***
اردو نیوز میں شائع ہونے والے میرے کالموں سے منتخب تحریروں کا دوسرا مجموعہ گزشتہ ہفتے ہی شائع ہوا ہے ۔ اس کا عنوان ہے ’’صحرا میں گونج‘‘ ۔ پیش لفظ کچھ یوں ہے ۔
’’ڈولتے رنگین بجروں سے سرگوشیاں کرتی بحیرہ مرمرہ کی خنک جھاگ  ہزاروں داستانوں کی امین ہے ۔ اسی ساحل پر عثمانی سطوت و جبروت کی کہانی نے آغاز کیا تھا ۔ جب سلطان محمد فاتح کے سفینے قسطنطنیہ کی دیواروں کے سائے میں آن لنگر اندازہوئے تو معروف کلیسا آیا صوفیہ کے اندر ستونوں کی آڑ لیے باز نطینی راہبائیں اور پادری خوف سے لرزتے تھے ۔ سلطان نے صلیب ہٹوا کر وہاں منبر رکھوایا اور خون آلود لباس میں ہی نماز کی ادائیگی کی ۔ اسی خنک ساحل سے چند سو گز دور شہرہ آفاق توپ کاپی کا عجائب گھر ہے ۔ عثمانی سلاطین کا صدیوں کا جبروت افسردہ سکوت کی چادر اوڑھے پڑا ہے ۔
میں بھی کبھو کسو کا سر پرُ غرور تھا
گردش روز و شب بڑی ستمگر ہے ۔ اللہ باقی !!‘‘
مجھے اپنی یہ تحریر اس لیے یاد آئی کہ میں نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ارسال کیا گیا ایک کلپ دیکھا ۔ ایک کھلی جگہ میں درختوں کے ذخیرے کی چھاؤں میں کوئی 2  درجن کے قریب افراد احتراما سر جھکائے کھڑے تھے اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان انتہائی خوش الحانی سے قرآن حکیم کی آیات مبارکہ کی تلاوت کررہے تھے ۔ ماحول ساکت تھا گویا فضا اور اشجار بھی کلمات جلیلہ کے اثر میں تھے ۔ طیب اردگان حافظ قرآن ہیں، ان کی کلام ربانی کی ادائیگی ایک مقدس رودبار کی طرح سماعت کا حسن تھی ۔
بہت لمبی داستان ہے ۔ جنوبی انا طولیہ کی ایک چھوٹی سی ریاست اس کی سحیر کے حاکم ارطغرل کے بیٹے نے ایک خواب دیکھا ۔ ’’عثمان کا خواب‘‘ کے عنوان سے معروف قصے کے مطابق عثمان نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا درخت ہے جس کی بلندی آسمان کو چھوتی ہے اور جس کی 4 طویل جڑیں 3 براعظموں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ خواب کی تعبیر کے مطابق درخت سلطنت عثمانیہ تھا اور 4 جڑیں ان دریاؤں کی طرف اشارہ کرتی تھیں جن کے آس پاس کے علاقوں پر عثمانی اقتدار قائم ہونا تھا ۔ وہ دریا دجلہ ، فرات ، نیل اور ڈانیوب تھے ۔درخت کے سائے میں 4 پہاڑی سلسلے بھی تھے ۔ چنانچہ ارطغرل کے بیٹے نے عثمان اول بن کر عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اپنے آپ کو تاریخ سازی کے دھارے میں ڈال دیا ۔ یہ 1299ء تھا ۔ 1324ء میں اپنی وفات تک عثمان اول نے اپنی سلطنت کو بازنطینی علاقے کی حدود تک وسیع کردیا تھا ۔ اس کی وفات کے بعد کی صدی میں عثمانی اقتدار مشرقی بحیرہ روم اور بلقان کی ریاستوں تک پھیل چکا تھا ۔ فتح بلقان کے بعد بازنطینی دارالحکومت قسطنطنیہ اگلا ہدف تھا ۔ تاہم 1402ء سے 1413ء تک کے 11 برس ضائع ہوگئے ۔ تیمور لنگ نے 1402ء میں انقرہ کی جنگ میں سلطان بایزید کو شکست سے دوچار کیا ۔ پھر ترکوں میں خانہ جنگی بھی پھیلی ۔ مراد اول نے مسند اقتدار سنبھالتے ہی صورتحال پر قابو پایا اور عثمانیوں کا اعتماد بحال کیا ۔ اس کے بیٹے مراد دوم کے 1430ء سے 1450ء تک کے 20 برس سلطنت عثمانیہ کے لیے انتہائی سود مند رہے۔ اس دوران بلقان کی ان ریاستوں پر دوبارہ اقتدار قائم کیا گیا جو بابزید بلدرم کی شکست کے بعد ہاتھ سے نکل چکی تھیں ۔ مراد دوم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمد دوم منصئہ شہود پر نمودار ہوا ۔ اپنی بے پناہ فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کی بناء پر اس نے ریاست اور فوج کی دوبارہ تنظیم کی اور 29 مئی 1453ء کو صرف 21 برس کی عمر میں اس نے قسطنطنیہ پر چڑھائی کی اور ہر طرح کے اسلحے سے لیس بازنطینی فوج کو شکست دیتا شہر پر قابض ہوگیا ۔ معروف مرکزی کلیسا آیا صوفیہ کے دروازے پر گھوڑا جا کھڑا کیا اور اتر کر اندر داخل ہوا ۔ صلیب اٹھوا کر منبر رکھوایا اور خون آلود لباس میں ہی نماز ادا کی ۔ خوف سے لرزتے پادریوں اور راہباؤں کی جان بخشی کردی ۔
سلطان محمد فاتح کا رکھوایا منبرآج بھی وہاں موجود ہے ۔ کلیسا کا نام اب مسجد حاجیہ صوفیہ ہے ۔ وہاں باقاعدگی سے پانچوں وقت ٹیپ ریکارڈ چلا کر اذان دی جاتی ہے ۔ کوئی نصف درجن کے قریب بوڑھے ترک مختصر سی صف محراب کے سامنے بناتے ہیں اور امام کی اقتدا میںنماز کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ اس دوران مغربی سیاح اور نوجوان ترک لڑکے اور لڑکیاں جوتوں سمیت مسجد کے اندر گھومتے شور مچاتے رہتے ہیں ۔ ضعیف نمازی سلام پھیرنے کے بعد خاموشی سے اٹھ جاتے ہیں ۔ نماز کے لیے بچھائی گئی چٹائی لپیٹ دی جاتی ہے ۔ بے ہنگم شور ، آلودہ جوتے ، سہمی ہوئی جبینوں کے سجدے!!1453ء کے بعد ساڑھے چار سو برس خلافت عثمانیہ کے عروج و زوال کی عجب داستان ہے ۔ 15ویں اور 16ویں صدیوں میں عثمانیوں نے فتوحات اور و سعت کے نئے باب لکھے ۔ اپنی سلطنت کو وسطی یورپ اور شمالی افریقہ تک پھیلایا ۔ سمندروں پر ترک بحریہ کا غلبہ تھا ۔ بحیرہ مردار ، بحیرہ ایجین اور بحیرہ روم کی لہروںاور تجارتی راستوں پر صرف سلطنت عثمانیہ کا نام لیا جاتا تھا ۔ سلطان سلیم اول نے جس کا اقتدار 1512ء سے 1520ء تک تھا فارس کے صفوی حاکم شاہ اسماعیل کو شکست فاش دی ۔ سلیم اول نے مصر پر قبضہ کیا اور وہاں ترک بحری اڈہ قائم کیا ۔ اس سلطان کے بعد آنے والے سلیمان اعظم نے 1521ء میں بلغاریہ اور پھر 1526ء میں جنوبی اور مرکزی ھنگری کو فتح کیا ۔ سلیمان اعظم نے ہی 1529ء میں ویانا کا محاصرہ کیا لیکن موسم سرما کی سختی کے پیش نظر واپس ہونا پڑا ۔ مشرق میں عثمانیوں نے 1535ء میں ایرانیوں سے بغداد چھین لیا ۔ سلیمان اعظم کے اقتدار کے اختتام پر عثمانی سلطنت کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ ہوچکی تھی ۔ ترک امیر البحر خیر الدین بار بروس نے عیسائی بحری بیڑوں کو مسلسل شکستوں سے دوچار کیا ۔
الجزائر ، تیونس ، رہوڈز ، طرابلس ، نیس ، عدن ، مسقط ، کورسیکا اورقبرص کی فتوحات میں عثمانی بحریہ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا لیکن پھر شمشیروسناںنے طاؤس ورباب کے لیے جگہ خالی کردی ۔ یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کا اختتام کردیا گیا ۔ آخری سلطان محمد ششم وحدتین کو 17 نومبر کو ایک بگھی میں سوار کرایا گیا اور نامعلوم منزلوں کا مسافر بنادیا گیا ۔ 29 اکتوبر 1923ء کو مصطفے کمال اتاترک نے ترکی کو خلافت کی بجائے جمہوریہ قرار دے دیا اور 3 مارچ 1924ء کو خلافت عثمانیہ کے اختتام کا اعلان کردیا گیا ۔ لوزان معاہدے میں یہ شرط لگائی گئی کہ ترکی جمہوریت کا رستہ اختیار کرے گا اور ایک سو سال تک اس دستاویز کی پابندی کرتے ہوئے اپنے معدنی وسائل سے بھی فائدہ نہیں اٹھائے گا ۔ مغربی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کو دست وپابریدہ طفل کی طرح تاریخ کے تاریک احواشی میں پھینکنے کی پوری کوشش کی ۔ عربی کی تدریس و تعلیم ممنوع کرائی گئی ، معاشرہ لادین بنادیا گیا ۔ ایک صدی بیت چکی ۔ آج کے ترکی کے صدر کا نام حافظ طیب اردگان ہے ، شام میںبشار الاسد کے مظالم پر تڑپ اٹھتا ہے اور 3 لاکھ مظلوم شامیوں پر اپنی سرحدیں کھول دیتا ہے ۔ روہنگیا کے مسلمانوں کے آنسو پونچھتا ہے ، اقوام متحدہ کے ایوانوں میں بنجامن نیتن یاہو کو بے عزت کرتا ہے اور حافظ قرآن ہے اور دلکش آواز میں کلام مبین کی تلاوت کرتا ہے ۔ تو کیا اس نے بھی کوئی خواب دیکھا ہے؟ آسمان کی بلندیاں چھوتا بہت بلند مضبوط درخت ! گہری 4,5,6  جڑیں؟
 

شیئر: