Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب دیس چھوڑ آیا تو آرام کیساـ؟ جسیم الدین

پردیس میں ہم غم کی خبر سنیں یا خوشی کی بس آنسو بہاکر چپ ہوجاتے ہیں،دادی کے انتقال کی خبر ملی تو کمرے میں جاکر روتا رہا

 

انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی

پچھلے دنوں میری ملاقات حرم شریف میں خدمت پر مامور ہند سے تعلق رکھنے والے نوجوان جسیم الدین سے ہوئی۔بھلے شکل وصورت کا مالک جسیم خود کو نہایت خوش نصیب قرار دیتے نہیں تھکتا تھا کہ وہ مسجد الحرام میں اللہ کے گھر کی خدمت پر مامور ہے تاہم جسیم کی معصوم خواہشات تو اپنی جگہ موجود تھیں۔میں نے جسیم الدین کو صفائی کاکپڑا تھامے حرم کا فرش چمکاتے ہوئے دیکھا تو نجانے دل نے کیوں کہا کہ اس سے بات کروں، اس کے دل میں کچھ چھپا ہے اور پھر میں اس کے پاس پہنچ گیا۔

السلام علیکم برادر:کیسے ہو؟میرے سلام پر تو اس نے کوئی خاص حیرت کا اظہار نہیں کیا کیونکہ ایسے سلام تودن بھر میں درجنوں مرتبہ لوگ کرتے ہیں تاہم جب میں نے اسے برادر کہہ کر مخاطب کیا تو وہ تھوڑا رک گیا۔

وعلیکم السلام :جی بولئے کیا کہنا ہے آپ کو؟ میں نے کہا: یار !میں اردونیوز میں ہوتا ہوں۔ تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں،تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد وہ تیار ہوگیا۔

اردونیوز:تمہارا نام کیا ہے؟

میرا نام جسیم الدین شیخ ہے۔اس نے جواب دیا۔ اچھا جسیم الدین شیخ! تم تو بڑے خوش نصیب ہو۔ یہاں حرم مکی میں خدمت پر مامور ہو ۔میں تم سے کچھ دل کی باتیں کرونگا ،معلوم ہے نا دل کی باتیں کیا ہوتی ہیں؟میرے سوال پر وہ تھوڑا مسکرایا اور کہنے لگا : بھائی میں کیا جانوں دل کی بات۔ میں تو گاؤں کا غریب آدمی ہوں،چلیں آپ پوچھیں کیا پوچھنا ہے ؟میرے پاس وقت نہیں۔

اردونیوز:یہاں کب سے ہو،کہاں سے آئے یہاں پر اور کیوں آئے،کیسے آئے کیا سوچتے ہو؟میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر ڈالے میں ۔چاہتا تھا کہ وہ تفصیل سے بولے، بات کرے۔

جسیم الدین شیخ:میں ڈھائی سال پہلے ادھر حرم مکہ میں ایک ایجنٹ کے ذریعے صفائی کے کام پر آیا ہوں۔ کلکتہ کے ضلع مرشدآباد کے گائوں میں رہتا تھا ،وہاں کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہم دھان چاول وغیرہ اگاتے ہیں۔یہاں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے ،حرم میں ہونا خوش نصیبی ہے۔ ہمیں حج اور رمضان میں 12گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے جس کا اوورٹائم ملتا ہے،ابھی میری تنخواہ 725ریال ہے، باہر بھی کچھ کام کرلیتا ہوں جس سے 5سے6سو ریال مل جاتے ہیں۔ (مر شد آباد ،ہندوستانی ریاست مغربی بنگال کا ایک مسلم اکثریتی شہر ہے ۔یہ شہر مرشد قلی خان کے نام سے موسوم ہے ۔موتی جھیل مسجدنواب نوازش محمد خان نے تعمیر کروائی۔کترا (KATRA)مسجد 1724میں نماز کیلئے کھولی گئی۔ناسی پور پیلس1865میںراجہ دیبی سِنگھا نے تعمیر کیا)

اردونیوز:اتنے سے پیسوں میں کھاتے بھی ہو اور ہند بھی بھیجتے ہو،کھانا خود پکاتے ہو؟ جسیم الدین شیخ :جی میں خود پکاتا ہوں۔کیا کروں ہمارے ملک میں تو یہ بھی نہیں،یہاں تو بہت سکون ہے،گھر والوںکیلئے کام کرنا ہوتا ہے۔

اردونیوز:ارے واہ یعنی تم کھانا پکالیتے ہو ،تو کس نے سکھایا کھانا پکانا؟

جسیم الدین:کون سکھائے گا یہاں ،جب آدمی باہر آتا ہے تو سب کچھ آجاتا ہے ،میں نے بھی سیکھ لیا ۔صاحب حالات آدمی کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں ،مجھے بھی سکھادیا۔اب تو عادت ہوگئی ہے،کھانے بھی مزے کے پکالیتا ہوں،آپ کھائیں نا ہمارے ساتھ… ارے بہت شکریہ ،ضرور کھائیں گے ایک دن ۔جسیم الدین کی دعوت پر ہم نے شکریہ کے ساتھ بات آگے بڑھائی۔

اردونیوز:اچھا جسیم الدین تم کمرے میں تنہا بھی ہوتے ہوگے، کبھی یاد آتی ہوگی گھر والوں کی محلے کی ،کیامحسو س کرتے ہو؟

جسیم الدین :وہ تو یاد آتا ہے نا صاحب!ماں باپ ،بیوی بچے چھوڑ کر آئے ہیں تو یاد تو آتی ہے مگر کیا کریں مجبوری ہے، کام تو کرنا ہے ۔آدمی پیٹ کیلئے بہت کچھ کرتا ہے۔میں بھی کررہا ہوں ،میں تو اللہ کا شکرادا کرتا ہوں کہ اچھی جگہ پر ہوں ،ورنہ میرے کچھ دوست تو بہت سخت کام کرنے پر مجبور ہیں۔

اردونیوز:اچھا جب گھر والے یاد آتے ہیں تو کیا کرتے ہو؟

جسیم الدین :کیا کروں گاصاحب !یاد آتی ہے تو فون کرلیتا ہوں ۔بہت زیادہ یاد آتی ہے تو کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر رو لیتا ہوں۔کیا کریں اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔عید تہوار پر تو گھر والے بہت زیادہ یاد آتے ہیں۔گھر ،گلی ،محلہ اور دوست تو بہت زیادہ یاد آتے ہیں۔کیاکروں پردیس ہے۔ یہاں تو تنہائی ہے ، ایسا نہیں کہ یہاں میرے دوست نہیں،دوست یہاں بھی ہیں مگر میرا محلہ تو نہیں۔بس صاحب یہی دکھ ہے(جسیم الدین کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں،یہ صرف جسیم الدین کی آنکھیں نہیں تھیں بلکہ پردیس میں بسنے والے ہر پردیسی کی آنکھیں تھیں چاہے وہ کتنی ہی بڑی پوزیشن پر ہو یا کتنے ہی چھوٹے کام کررہا ہو)۔

اردونیوز:وہاں پر عید کیسے گزرتی تھی ؟

جسیم الدین :وہاں تو عید کا مزہ تھا ،نئے کپڑے پہن کر نماز پڑھنے سب ساتھ جاتے تھے،بہن بھائی مل کر کھاتے پیتے تھے،باہر دوستوںمیںگھومتے تھے ،مگر کیا کریں اب تو صرف یاد کرلیتے ہیں؟

اردونیوز:تو امی ابو تو عیدی دیتے ہونگے؟

جسیم الدین:صاحب میں بتائوں ،میر ی امی کا تو اس وقت ہی انتقال ہوگیا تھا جب میں ایک سال کا تھا ۔میری دادی نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا۔میرے ابو نے دوسری شادی کرلی ۔دوسری امی نے ہم بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیںکیا۔ہم نے خود محنت کی۔بہن کی شادی ہوگئی۔بڑے بھائی نے مجھے پالا ،وہی ہے میرا سب کچھ۔ میرا بھائی میرا دوست ہے،اگر میں 2دن فون نہ کروں تو اس کا فون آجاتا ہے کہ خیریت ہے،تم کہاں ہو،وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔میرا دوست ہے وہ ،بلکہ سب کچھ ہے صاحب سب کچھ ۔

اردونیوز:تمہاری تعلیم کیا ہے؟

جسیم الدین:جی میں نے میٹرک کیا ہے ،بس اس سے آگے نہیں پڑھ سکا ،غریب کیسے پڑھ سکتا ہے ،بس محنت ہی ہمارے نصیب میں ہے۔یہاں کے بھی بڑے مسائل ہیں،دل گھبراتا ہے،اب تو بس وقت کاٹ رہا ہوں۔

اردونیوز:یہاں تم صبح سے لے کر رات تک کام کرتے ہو۔ کس دن چھٹی ہوتی ہے؟

جسیم الدین:میں 24گھنٹے میں16گھنٹے کام کرتا ہوں،سخت محنت کرکے کمرے میں جاتا ہوں تو سونے کیلئے زیادہ سے زیادہ 8گھنٹے ملتے ہیں، اس میں اور بھی کام ہوتے ہیں۔

اردونیوز: کبھی دل نہیں کرتا کہ تفریح کروں،گھوموں پھروں؟

جسیم الدین :کیسے گھوم پھر سکتے ہیں صاحب!چھٹی والے دن کپڑے دھونے ہوتے ہیں،کھانا پکاتاہوں،کمرے کی صفائی کرتا ہوں،اسی میں وقت ختم ہوجاتا ہے۔پھر اچھی طرح سونا بھی اسی دن ہوتا ہے،کیونکہ پورے ہفتے تو نیند پوری نہیں ہوتی۔صاحب! جب اپنا دیس چھوڑ دیا تو پھر آرام کیسا۔یہاں تو بس کام ہی کام ہے۔

اردونیوز:اچھاکون سا کھیل پسند ہے؟

جسیم الدین :ہم کرکٹ کھیلتے تھے،میں کبڈی بھی کھیلتا تھا۔میں کبڈی کا بڑا زبردست کھلاڑی تھا ،اپنے مقابل کو پچھاڑ دیتا تھا۔ بڑے مزے آتے تھے صاحب،سب یاد آتے ہیں،وہاں تو سب اپنے تھے،محلے میں سب اپنے تھے،وہاں نانی کا گھر تھا، یہاں تو نانی کا گھرنہیں ،کیا کریں،وہاں تو کسی بھی رشتہ دار کے گھر جاکردروازہ کھٹکھٹاتے اور کہتے کھانا کھلادواور پھر کھانا مل جاتا تھا۔سارا محلہ ہی اپنا گھر تھا۔

اردونیوز:دادی یاد کرتی ہیں، کیا وہ بلاتی نہیں؟

جسیم الدین :دادی کیا بلائیں گی، وہ تو انتقال کرگئیں۔میں اِدھر تھا۔میری دادی نے ہی ہمیں پالا تھا،مگر میں ان کے انتقال پر بھی وطن نہ جاسکا،میں ڈیوٹی پر تھا،فجر کے وقت مس کال آئی۔ میں نے فون کیا گھر پر تو مجھے بتایاگیا کہ تمہاری دادی کا انتقال ہوگیا۔ کمرے میں چلاگیا ،مجھے کوئی گلے لگانے والا نہیں تھا۔کافی دیر تک روتا رہا۔میں نے اپنے انچارج سے کہا کہ دادی کا انتقال ہوگیا ہے مگر اس نے مشورہ دیا کہ عمرہ کرلو ۔میں بتانہیں سکتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا اس دن،صاحب میر دل چاہتا تھاکہ میں اڑکر گائوں پہنچ جائوں مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے ، میں نہیں جاسکتا تھا۔اُسوقت کمرے میں کوئی نہیں تھا،پھر ایک دوست آیا، اس نے تسلی دی ،مگر اس سے زیادہ وہ بھی کیا کرسکتا تھا۔بس صاحب یہی ہے پردیس کا مسئلہ ،ہم غم کی خبر سنیںیا خوشی کی بس آنسو بہاکر چپ ہوجاتے ہیں۔

اردونیوز:بھائی یاد آتا ہے تو کیا کرتے ہو؟

جسیم الدین:بھائی یاد آتا ہے تو بہت روتا ہوں،بھائی کا فون آتا ہے تو میں رونے لگتا ہوں مگر بھائی ڈانٹتا ہے، کہتا ہے کہ محنت کرو ،بھائی نے مجھے ہمیشہ بہت کچھ دیا ،میر ا بڑا بھائی سب سے اچھا ہے۔

اردونیوز:اچھا آخری سوال کہ اگر ہند سے کوئی حرم میں آکر کام کرنا چاہے تو کیا کرے؟

جسیم الدین:ممبئی میں ان کا دفتر ہے،وہ لوگ یہاں لوگوں کو بھیجتے ہیں،وہاں چلا جائے معلوم ہوجائے گا۔

محترم قارئین !

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے،اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں۔ کمپوز کرکے بھیجیں تواچھاہےیا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیںنیچے دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔

ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428۔رابطہ کریں آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔ای میل:[email protected] آپ ہماری ویب سائٹ بھی وزٹ کریں۔www.urdunews.com

شیئر: