Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوامی زندگی میں وڈیو ٹیکنالوجی کا استعمال

 عبدالحلیم البراک ۔ مکہ
وڈیو ٹیکنالوجی روس میں ہونے والے 2018ءکے فٹبال ورلڈ کپ کے میچوں میں بڑے پیمانے پر استعمال کی گئی۔یہ ٹیکنالوجی ریفری کو ایک منٹ یا اس سے کم مدت کیلئے میچ معطل کرنے کا اختیار بھی دیئے ہوئے ہے۔ بعض حالات میں ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ کسی کھلاڑی یا کسی قومی ٹیم پر جلد بازی میں کوئی ظالمانہ فیصلہ نہ ہوجائے۔ یہ ٹیکنالوجی ظلم کا دائرہ محدود کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ ریفری مخصوص اشارہ کرکے کھلاڑیوں کو یہ پیغام دیدیتاہے کہ حتمی فیصلے کیلئے وڈیو سے فائدہ اٹھایا جائیگا۔
یہ منظر نامہ دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ عوامی زندگی میں اگر وڈیو ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا جائے تو ایسی صورت میں غلطی یا ظلم یا غلط فہمی کا ازالہ بآسانی ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر میاں بیوی کے درمیان وڈیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے طلاق کے واقعات محدود ہوسکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہورہا ہو اور شوہر نامدار مظلوم بیوی کو طلاق کا پروانہ پکڑانے کا تہیہ کرچکا ہو تو ایسی صورت میں بیوی اشارہ کرکے شوہر سے درخواست کرے کہ فیصلے سے قبل آپ متعلقہ واقعہ کی وڈیو ضرور دیکھ لیجئے۔ وڈیو دیکھنے پر منظر نامہ 180کی ڈگری سے تبدیل ہوسکتا ہے۔ وہی شوہر جو ایک لمحہ قبل طلاق نامہ پکڑانے جارہا تھا وہ اپنی غلطی کو وڈیو میں صاف طریقے سے دیکھ کر طلاق نامے کی جگہ اپنی اہلیہ سے معافی مانگےن پر مجبور ہوسکتا ہے۔گھریلو مسائل کا دائرہ محدود اور ختم کرنے میں وڈیو ٹیکنالوجی کا استعمال بڑا موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
اسی طرح ٹریفک اہلکار گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور مالکان کو قائل کرنے کیلئے وڈیو ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے بعض حالات میں ڈرائیور خود کو برحق اور ٹریفک اہلکار کو 100فیصد قصور وار سمجھ رہا ہو۔ وڈیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے منظر نامہ100 فیصد تبدیل ہوسکتا ہے۔ اسکا بھی امکان ہے کہ ٹریفک اہلکار جس نے گاڑی کے ڈرائیور کو قصور وار مان کر جرمانے کی پرچی جاری کردی ہو، وہ وڈیو کے ذریعے واقعہ کا منظر دیکھ کر نادم ہوجائے۔ وہ خود غلطی پر ہو اور گاڑی کا ڈرائیو ربے قصور نکل آئے۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ ٹریفک اہلکار اس حالت میں بھی کوشش یہی کریگا کہ50فیصد کا ذمہ دار گاڑی کے ڈرائیور کو ٹھہرا دے۔ 
میرے خیال میں انتظامی و دفتری امور و مسائل نمٹانے کیلئے بھی وڈیو ٹیکنالوجی استعمال کی جاسکتی ہے۔ فرض کیجئے کہ اعلیٰ عہدیدار غصے کے عالم میں بعض کارکنان کی چھٹی کرنے کا فیصلہ کرلیں ۔ ان کے غصے کا باعث ملازم کی کوتاہی یا ڈیوٹی سے غیر حاضری ہو ۔ اگر اعلیٰ عہدیدار برطرفی کا فیصلہ صادر کرنے سے قبل اپنے سیکریٹری سے وڈیو ٹیکنالوجی کی مدد طلب کرے تو ایسی حالت میں صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔ سیکریٹری اپنے افسر اعلیٰ کو متعلقہ معاملے کا منظر نامہ واٹس ایپ کے ذریعے گھر بھیجنے کا اہتمام کرے اور اعلیٰ عہدیدار وہ وڈیو کلپ پرسکون ماحول میں دیکھے۔ گھر میں ہونے کے باعث چین و سکون اور عدل و انصاف کی فضا کا زیادہ امکان ہوگا۔ وڈیو دیکھ کر فیصلہ تبدیل ہوسکتا ہے۔
تعلیمی ادارے بھی انسپکٹرز کے بجائے وڈیو ٹیکنالوجی استعمال کرکے اساتذہ کی بابت مناسب فیصلے کرسکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جیسے ہی انسپکٹر آتا ہے استاد کی شخصیت تبدیل ہوجاتی ہے اور جیسے ہی وہ کلاس روم سے نکلتا ہے، استاد کا رنگ و روپ بدل جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف چھوٹے موٹے طلباءہی نوٹ کر پاتے ہیں۔ اس موقع پر لئے گئے وڈیو کلپ صحیح فیصلے تک رسائی میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ اگر کلاس روم کا تعلق طالبات اور استانیوں سے ہوگا تو وہاں وڈیو کا استعمال ممنوعات کا حصہ بھی ہوگا۔
طبی عملے کی غلطیوں کا فیصلہ بھی وڈیو ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ بستر پر موجود مریض وڈیو ٹیکنالوجی کی مدد کا اشارہ کرکے طبی عملے کی غلطیو ںکی نشاندہی بآسانی کراسکتا ہے۔ وڈیو کلپ سے یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہوسکتی ہے کہ ڈاکٹر اپنے مریض کے پیٹ میں قینچی یا دیگر طبی لوازمات بھول کر آگے تو نہیں بڑھ گیا تھا۔
سعودی خواتین گھریلو ملازماﺅں کی نگرانی کےلئے وڈیو ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والوں میں پیش پیش ہیں۔ خاتون گھر سے دفتر جاتی ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ ملازمہ گھر پر کیا گل کھلا رہی ہے۔ واپس آکر وہ وڈیو ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی غیر حاضری کے دوران گھر میں ہونے والی ہر سرگرمی کا بآسانی پتہ لگا لیتی ہے۔
وڈیو ٹیکنالوجی جعلساز تاجر کے خلاف محدود پیمانے پر ہی موثر ثابت ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ اسی لئے تاجر حضرات اس کے استعمال کی مخالفت کرینگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: