Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

شہزاد اعظم 
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان نے 1947ءمیں اپنے قیام کے بعد سے 71برس کے اندر ”سرپٹ“ ترقی کی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو سرکاری دفاتر میں اہم اوراق کو یکجا کرنے کے لئے ببول کے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے جبکہ آج کامن پن جسے عرف عام میں ”آلپن“ بھی کہا جاتا ہے ، بکثرت استعمال ہو تی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ جن کاغذات کا بندھن مضبوط بنیادو ں پر استوار کرنا ہو، انہیںاسٹیپلر نامی مشین کی مدد سے پن کے ذریعے ایک دوسرے کا’ ’ہمدم“ کر دیاجاتا ہے ۔یہ سب ”سرپٹ ترقی“ کی نشانیاں ہیں۔ہمیں محبوب کی جفاﺅں کی مانند اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے ، اسکول جایا کرتے تھے، اس دور میں تانگے چلا کرتے تھے۔ والدین کے ساتھ ہم سیر و تفریح کرنے یا اعزہ و اقربا کے ہاں ملاقات کے بہانے ”کھانے پینے“ جاتے تو تانگے کا ہی سہارا لیتے۔اُس کم ترقی یافتہ دور میں تانگے میں ہارن نام کی کوئی شے نہیں ہوتی تھی چنانچہ کوچوان تانگے کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی ہستی کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لئے عجیب آواز منہ سے نکالتا تھا جو ہمارے کانوں پر یوں مترشح ہوتی تھی ”بچموڑتوں“۔وہ تو ہمیں عنفوان شباب میں پہنچ کر ادراک ہوا کہ وہ راہ گیر کو راستے سے ہٹنے پر مائل کرنے کے لئے پنجابی زبان میں کہہ رہا ہے کہ”بچ موڑ توں“ یعنی ”محترم! موڑ سے بچ جائیے“۔پھر یوں ہوا کہ جب تک ہم نے مڈل کلاس میں قدم رکھا تو تانگوں نے بھی ترقی کر لی اور انہوں نے لوگوں کو گھوڑے تانگے کی آمد کی ا طلاع دینے کیلئے”بھونپو“ استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ پہلے وہ زبانی انتباہ کرتے کہ ”بچموڑتوں“ اور پھر فوراً ہی بھونپو دباتے جس سے کچھ یوں آواز برآمد ہوتی ”بھوآﺅں“، یہ اتنی ڈراﺅنی ہوتی کہ اگر راہ گیر کوئی دوشیزہ ہوتی تو وہ چیخ مار کر ایک جانب ہو جاتی۔ پھر یوں ہوا کہ ملک ترقی کا سفر طے کرتا رہا ۔ تانگوں کو سڑکوں پر آنے سے روک دیا گیا۔ اب ٹیکسیاں اور رکشے چلنے لگے۔ صوتی اور فضائی آلودگی نے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا مگر اسے اذیت کو”ترقی“ کے زیر عنوان قبول کر لیا گیا۔
ہم نے وہ ”کم ترقی یافتہ“ دور بھی دیکھا ہے جب اسکول جانے کے لئے کوئلے والی استری سے کپڑے استری کئے جاتے تھے۔ ہماری والدہ ہمیں ”اسکولی وردی“ یعنی ”یونیفارم“ استری کر کے دیتی تھیں مگر استری کے اندر کوئلے ڈالنا، انہیں سلگانا اور پھر دہکانا، یہ سب ہمارا کام ہوا کرتا تھا۔ والدہ ہماری قمیص استری کرتے ہوئے خاص خیال رکھتی تھیں کیونکہ اگر گرم استری قمیص کے بٹن پر پھِر جاتی تو اس کی شکل ایسی ہو جاتی جیسے کسی بدصورت خاتون کو غصہ آ گیا ہو۔ اس کے بعد اس بٹن کی شکل درست کرنے کے لئے اسے ”منانے“ کی کوشش میں ہزار استریاں کرتے مگر وہ نہ مانتا۔ بالآخر اس بٹن کو نکال کر دوسرا بٹن لگانا پڑتا تھا۔پھر یوں ہوا کہ ہمارے وطن نے ترقی کا سلسلہ جاری رکھا اور بجلی سے چلنے وا لی استریاں آگئیں۔پانچ منٹ میں استری گرم، لباس کی شکنیں گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب۔اسی طرح بٹن بھی ایسے ایجاد ہوگئے کہ دہکتی استری اس پر رکھ دیں تو بھی بٹن کے ”نین نقش“ نہیں بگڑتے تھے۔
یقین جانئے،ترقی کی یہ فہرست بہت طویل ہے ۔ہمارا ملک گزشتہ 70برسوں سے آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے لیکن غیر مرئی قوتوں نے ہم سے سہولتیں چھین کر، ہمارے وسائل کو مسائل میں تبدیل کر کے جس طرح ہمیں پسماندہ کرنے کی سازش شروع کی ہے ، اس سازش کو نہ صرف کچلنا ہوگا بلکہ اسے ان غیر مرئی قوتوں پر ہی دے کر مارنا ہوگا۔اس طرح ہم ”دور حجر“ کی جانب جانے سے محفوظ رہ سکیں گے۔ہمیں چاہئے کہ مل کر ان پوشیدہ دشمنوں کا مقابلہ کریں اور انہیں بتا دیں کہ:
 ”آساں نہیں مٹانا، نام و نشاں ہمارا۔“
 

شیئر: