Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کے کاشانے پر عید ملن مشاعرہ

 
ادب ڈیسک
پاکستان سے آئے ہوئے مہمان شاعر، ادیب، محقق، مترجم اور عربی زبان کے عظیم استاد، صدارتی ایوارڈ یافتہ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ستارہ امتیاز کے اعزاز میں عید ملن مشاعرے کا اہتمام معروف شاعر ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی کی اقامت گاہ پر کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خاص جدہ کی بیشتر ادبی و ثقافتی تنظیموں کے روح رواں شعلہ بیان مقرر پروفیسر ڈاکٹر سید علی محمود تھے۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ پاکستان کے معروف قاری انجینیئرمحمد آصف نے یہ شرف حاصل کیا۔ محمد امجد رفیق نے اپنے خوب صورت انداز میں ہدیہ نعت طیبہ پیش کیا۔ انکی نعت گوئی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نعت پاک، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر پڑھتے ہیں۔ تقریب کے پہلے حصے میں عید ملن کے حوالے سے عام نشست ہوئی جبکہ دوسرے حصے میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔
معروف مزاح نگار محمد امانت اللہ نے اپنے دو فکاہیہ انشائیے سنا کر حاضرین کو لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس محفل میں جدہ کے مشہور گلوکار مجیب الرحمن نے ہلکی پھلکی موسیقی کے ساتھ کئی گیت پیش کئے جنہیںحاضرین نے بے حد سراہا اور لطف اندوز ہوئے۔ اس موقع پر مجلس اقبال جدہ کے چیئرمین عمر خورشید رضوی نے بتایا کہ مجلس اقبال تواتر کے ساتھ علامہ اقبال کی یاد میں تقاریب منعقد کرتی رہے گی۔ مجلس اقبال کے جنرل سیکریٹری حامد اسلام نے اپنی گفتگو میں قومی زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ انسان کوئی بھی زبان سیکھے اور پڑھے مگر قومی زبان اردو کی قیمت پر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئی نسل اردو کی بجائے انگریزی کی طرف زیادہ مائل ہے جو اردو کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس موقع پر اردو اور عربی کے معروف شاعر احمد فاروقی نے بتایا کہ انکے دادا حاجی امداد مکی 120سال پہلے مکہ مکرمہ آئے اور انہوں نے مدرسہ صولتیہ کی داغ بیل ڈالی۔ وہ اور انکے اہل خانہ آج تک گھر میں اردو بولنا پسند کرتے ہیں اور انکا اردو زبان سے رابطہ برقرار ہے۔
اسے بھی پڑھئے:پہنچے گا منزلوں پہ کوئی کارواں نہ اب
تقریب کے دوسرے حصے میں باقاعدہ مشاعرہ ہوا جس میں پہلے صدر محفل پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی سے جی بھر کر انکا کلام سنا گیا۔ ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ معزز مہمان سے کلام سننے میں کوئی تشنگی باقی نہ رہ جائے۔ اس موقع پر ڈاکٹر بیبانی نے معزز مہمان کی شعری اور ادبی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور بتایا کہ پروفیسر صاحب کو نہ صرف یہ کہ 2009 ءمیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا گیا بلکہ انکی عظیم خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز کے اعزاز کا مستحق بھی ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ عراقی حکومت نے 800 سال پرانے نا مکمل مخطوطات کو مکمل کرنے کیلئے پروفیسر خورشید رضوی کا انتخاب کیا جنہوں نے اس مشکل کام کو بطریق احسن سر انجام دیا۔ انہوں نے اسلام سے قبل عہد جہالت کی شاعری پر تحقیقی کام کر کے اور کئی جلدوں پر مشتمل کتاب اردو میں لکھ کر اردو زبان اور اسکے مداحوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ انہوں نے انکے کلام کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انکا ایک ایک شعر عمیق معنی لئے ہوئے ہے اور انکے وسیع تجربے اور مشاہدے کا حامل ہے۔
پروفیسر خورشید رضوی نے نعت شریف سے آغاز کیا اور عقیدت کے موتی نچھاور کئے۔ اسکے بعد انہوں نے بہت سی غزلیں سنا کر سماں باندھ دیا۔ سامعین کی فرمائش پر انہوں نے اپنی مشہور غزل ' یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے' بھی سنائی۔ سامعین نے دل کھول کر انہیںداد دی اور اس دوران محفل پر وجد کا سماں طاری رہا۔ڈاکٹرخورشید رضوی کے کلام سے اقتباس پیش ہے:
٭٭پروفیسر خورشید رضوی:
پھر رہ نعت میں قدم رکھا
پھر دم تیغ پر قلم رکھا
اسکے بعد عام مشاعرے کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے میزبان ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی نے اپنا کلام سنایا۔ انہوں نے غزلوں کے علاوہ مزاحیہ کلام بھی سنایا۔
٭٭ڈاکٹر محمد سعید کریم بیبانی:
کہیں بھی جاو¿ں مرا تم سے فاصلہ نہ بڑھے
میں ہوں مدار میں اور درمیان میں تم ہو
گلی گلی تمہیں ڈھونڈا پتہ چلا ہی لیا
جہاں سے سنگ پڑے اس مکان میں تم ہو
٭٭٭
گو کہ مرجھایا ہوا پھول ہوں، سوکھا تو نہیں
میں نے گلشن کو ابھی اور بھی مہکانا ہے
میں نے بچوں پہ لگایا ہے، کمایا جو بھی
میری محنت کا انہی پودوں پہ پھل آنا ہے
اسکو انصاف کی امید ہے پر علم نہیں
عینی شاہد نے بیاں دے کے مکر جانا ہے
٭٭٭
عشق کے شہر سے گزرنا بھی
اور پھر پتھروں سے ڈرنا بھی
جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں
اتنا آساں نہیں ہے مرنا بھی
شان سے ڈوب ڈوبنے والے
عیب ہے اسقدر ابھرنا بھی
آئنہ ساتھ لے چلو یارو
دار پر جا کے ہے سنورنا بھی
سیڑھیاں چڑھ عروج کی اتنی
سہل ہو جن سے پھر اترنا بھی
جب قفس میں اسیر رکھنا ہے
کیا ضروری ہے پر کترنا بھی
عشق پر عشق وا رے بیبانی
چوٹ کھا کر کبھی سدھرنا بھی
٭٭افسر بارہ بنکوی:
کوئی شورش نہ اضطراب کوئی
کیسے آئے گا انقلاب کوئی
حال بوسیدہ ہو گیا ایسے
جیسے ماضی کی ہو کتاب کوئی
ایک جگنو بہت ہے میرے لئے
 ڈوب جائے جب آفتاب کوئی
٭٭٭
ادھر چراغ جلانے میں ہم رہے مصروف
ادھر ہواو¿ں سے ظالم کی ساز باز رہی
٭٭٭
اک انقلاب دلوں میں اٹھا کے آئے ہیں
جو سو گئے تھے انہیں بھی جگا کے آئے ہیں
دلوں کے بیچ کھڑی تھی جو آہنی دیوار
اسے ہم اپنے ہنر سے گرا کے آئے ہیں
نشانہ کون بنے گا ہمیں نہیں معلوم
بس ایک تیر ہوا میں چلا کے آئے ہیں
بس ایک کاغذی کشتی کو لے کے ہم افسر
سمندروں کے پسینے چھڑا کے آئے ہیں
٭٭الطاف شہریار:
خیر کرتے ہیں نہ کردار کی خو بیچتے ہیں
لوگ زخموں کو یہاں کر کے رفو بیچتے ہیں 
بھوک اور پیاس کے مارے ہوئے انسان یہاں 
پیٹ بھرنے کے لئے اپنا لہو بیچتے ہیں 
یہ جو ٹی وی کے مباحث میں الجھ پڑتے ہیں 
دیکھنے والوں کو کر دارِ عدو بیچتے ہیں
تیری مے سے ہے، غرض اور نہ میخانے سے 
ہم ترے شہر میں بس جام و سبو بیچتے ہیں 
٭٭٭
فساد ِ شہر کی تہمت ہمارے سر آئی 
امیرِ شہر نے منصف کو اک اشارہ کیا 
مرا وجود ہی چبھتا ہے اس کی آنکھوں میں 
کبھی حریف نے مجھ کو نہیں گوارہ کیا 
شدید دھوپ کی حدّت بیان کرنی تھی 
تو تیرے ہونٹوں کی سرخی کو استعارہ کیا 
وہاں پہ حسن کی خیرات بٹنے والی تھی 
نقاب اٹھتے ہی نظروں نے بھی نظارہ کیا 
بجھے بجھے تھے مضامینِ شعر اے الطاف 
تو ہم نے لفظوں کو اپنے لئے شرارہ کیا
٭٭احمد فاروقی:
نسیم صبح تو ہے اور میں ہوں
کسی کی آرزو ہے اور میں ہوں
تمہاری جستجو ہے اور میں ہوں
محبت آج توُہے اور میں ہوں
کسی کو کیا بتاو¿ں کیسا غم ہے
تمہاری آبرو ہے اور میں ہوں
مری مایوسیوں پر شمع بولی
کہ اس محفل میں تو ہے اور میں ہوں
خدایا خیر میرے آشیاں کی
کہ حسن شعلہ رو ہے اور میں ہوں
تقریب کے مہمان خاص ڈاکٹر سید علی محمود نے اپنے خطاب میں میزبان ڈاکٹر بیبانی کو ان کی ادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر بیبانی نامی گرامی شاعر ہیں جنکے کلام میں جذب بھی ہے اور کشش بھی۔ انہوں نے مشاعرے کی کامیابی کا سہرا پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کے سر باندھتے ہوئے کہا کہ آج کا مشاعرہ فن کمال کی بلندی پر اس لئے پہنچا کیونکہ ہمارے درمیان ستارہ امتیاز بیٹھے ہیں جنکے انوار سے ہم منور ہو رہے ہیں۔ ہمارے قلب کو تسکین پہنچ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ایسی محترم اور باکمال علمی شخصیت کے ساتھ بیٹھے ہیں جن سے ملنے اور ہمکلام ہونے کیلئے لوگ آرزومند رہتے ہیں۔ انکی آمد جدہ والوں کیلئے باعث افتخار ہے۔جب آپ یہاں آتے ہیں تو یہاں کی شعری اور ادبی نشستوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شاعروں کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے۔ آپ عالمی سطح کے شاعروادیب ہیں۔ ہم لوگ آپ سے سیکھتے ہیں۔ آپ پانچ زبانوں عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور پنجابی پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ آپکے کلام میں بڑی وسعت و گہرائی ہے۔ آپ نوجوانوں کے سینوں کو علم و حکمت سے منور کر رہے ہیں۔
پروفیسر خورشید رضوی نے حاضرین کے لئے اپنا منتخب کلام پیش کیا اورشرکائے بزم کی فرمائش پر ان کے پسندیدہ اشعار سنائے ، کلام کا نمونہ حاضر ہے:
٭٭پروفیسر خورشید رضوی:
مرے اس اولیں اشک محبت پر نظر کر
یہ موتی سیپ میں پھر مڑ کر آتا نہیں ہے
کوئی قاتل رواں ہے میری شریانوں میں خورشید
جو مجھ کو قتل کرتا ہے، نظر آتا نہیں ہے
٭٭٭
عافیت کہتی ہے پھر ایک ستمگر کو بلائیں
ریگ ساحل کی طرح اپنے سمندر کو بلائیں
جو نظر بھی نہیں آتا اسے دل میں رکھیں
وہ جو باہر بھی نہیں ہے ، اسے اندر کو بلائیں
راستے بھٹکے ہوئے قدموں کو آوازیں دیں
سیپیاں موج میں گھلتے ہوئے گوہر کو بلائیں
یوں رات ڈیڑھ بجے اس یادگار عید ملن مشاعرے کا اختتام ہوا۔
 

شیئر: