Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاندان کو نشانہ بنایا جار ہا ہے، مسعود اوزل

لندن:جرمنی کی فٹبال ٹیم کے مسلمان کھلاڑی مسعود اوزیل نے’ ’نسلی تعصب‘ ‘پر مبنی رویے کے سبب جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم میں کھیلنے سے انکار کر تے ہوئے انٹرنیشنل فٹبال سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ۔ انگلش کلب آرسنل کی نمائندگی کرنے والے مسعود نے اپنے کھلے خطوط میں کہا کہ ہمیشہ بڑے فخر اور اعتماد سے جرمنی کی شرٹ پہنی لیکن گزشتہ کچھ ہفتوں سے جرمن فٹبال فیڈریشن اور مخصوص حلقے کی جانب سے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کے بعد جرمنی کی قومی ٹیم کا حصہ نہیں رہنا چا ہتا ، اسی تناظر میں ریٹائر منٹ کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ ترک نژاد جرمن کھلاڑی مسعود کے مطابق دفاعی چیمپیئن کے طور پر جرمنی کے فیفا ورلڈ کپ کے پہلے راونڈ میں ہارنے اور ٹیم کی ناقص کارکردگی کا الزام بھی مجھ پر ہی عائد کیا جا رہا ہے جو ناقابل فہم ہے ۔2009 میں اپنے انٹرنیشنل کے آغاز کے بعد سے میں جو کامیابیاں سمیٹیں انہیں بھی فراموش کردیا گیا جب تک میں ٹیم کو فتوحات دلاتا رہا میں جرمن تھا اب ٹیم ہاری ہے تو میں تارک وطن ہو گیا۔ یاد رہے کہ ترک نژاد جرمن فٹبالر کو لندن میں ترکی کے صدر طیب اردگان سے ملاقات اور انہیں اپنے کلب کی شرٹ پیش کرنے کے بعد سے مسعود اور ان کے ساتھ فٹبالرز کو سخت تنقید کا سامنا تھا ۔ مسعود نے اس ملاقات کی تصویر شیئر کرکے اپنے مخالفین کو مزید ہرزہ سرائی کا موقع فراہم کردیا تھا۔ مسعود اوزیل اور ایک دوسرے جرمن کھلاڑی الیکے گوندوا نے بھی صدر طیب اردگان سے ملاقات کی تھی۔اوزیل نے ترکی کے صدر کو اپنی دستخط کی ہوئی شرٹ دی تھی جس پرلکھا کہ تھا ”میرے عزت ماب صدر کے لئے بہت احترام کے ساتھ۔“اوزیل نے کہا کہ یہ غیر سیاسی ملاقات تھی ، صرف فٹبال کے بارے میں بات کی تھی۔جرمنی کے کئی سیاستدانوں نے ان کھلاڑیوں کے اس اقدام کی مذمت کی۔ جرمنی کی جمہوری اقدار اور ان کی حب الوطنی پر سوالات اٹھائے تھے۔ یاد رہے کہ جرمنی نے ماضی میں ترکی کے صدر طیب اردگان کی جانب سے اپنی حریفوں کے خلاف کریک ڈاون پر شدید تنقید کی تھی۔ اوزیل کا کہنا ہے تھا کہ ان کے ترک آبا واجداد کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔ میرے خاندان والوں کو نسلی تعصب اور نفرت پر مبنی ای میلز اور دھمکی آمیر کالز آ رہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔میں خاموش نہیں رہ سکتا اور نسلی تعصب برداشت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، بہت ہوگیا ہے اور میں اب جرمنی کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔

شیئر: