Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میت کیلئے ایصال ثواب، جائز اور نا جائز کی حد

 قرآن زندوں کے لئے ہے ، مردوں کے لئے اسے پڑھناچھوڑدیں ، اس کا ثواب کسی دوسرے کو ہدیہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
* * *  *مقبول احمد سلفی ۔ طائف* * *
جنازہ کے نام پر امت میں بے شمار بدعات وخرافات درآئی ہیں جو گنتی سے باہر ہیں ۔ وفات سے لیکر دفن کرنے تک اور تدفین سے لیکر ایصال ثواب کے نام پر رسم ورواج، بدعات وخرافات، شرک وکفر اور تجارت ومعیشت کا ناجائز کھیل کھیلا جاتا ہے۔ مزارات کی تعمیر کرکے میت سے کمانے کا ذریعہ بنالیا گیا ہے ۔ ایسے ہی حالات کی علامہ اقبال نے جواب شکوہ میں عکاسی کی ہے :
بجلیاں جس میں ہوں آسُودہ، وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مِل جائیں صنَم پتھّر کے
    جو آدمی کل تک خود کھانے پینے، چلنے پھرنے، کام کاج کرنے، سونے جاگنے ، اٹھنے بیٹھنے ، دواوعلاج کرنے، بیماری وشفا، اولاد واطفال، راحت وسکون ، فضل وکرم کے لئے پل پل اللہ کا محتاج تھا، آج جسم سے روح نکلنے اور دنیا سے کوچ کرکے قبر میں داخل ہوکریکایک صفات الہٰیہ سے متصف ہوجاتا ہے۔وہ بارش بھی برساتا ہے، اولاد بھی دینے لگتا ہے، بیماری دور کرنے لگ جاتا ہے،لوگوں کی حاجت پوری کرنے لگتاہے، مشکلیں دور کرنے لگتا ہے، قسمت بنانے اورسنوارنے لگتا ہے۔ اس کیلئے سجدہ اور عبادت روا ہوجاتا ہے۔ اللہ کی پناہ ایسے گمراہ عقائد سے ۔
    یہا ں ہم ان مسائل کا ذکر نہیں کریں گے ورنہ مضمون طویل ہوجائے گا،یہاں میرا مقصد ایسے بعض غیر مشروع اعمال ذکر کرنا ہے جن کے ذریعہ میت کے لئے ایصال ثواب کیا جاتا ہے ۔
    میت کے گھر 40 دن تک کھانا بھیجنا:
    آج کل ایسا ہوتا ہے کہ لوگ میت کے گھر 40 دن تک کھانا بھجواتے ہیں، مجلس قائم کرتے ہیں اور اسی طرح اہل میت دوسروں کیلئے اپنے گھر کھانا پکاتے ہیں۔ وفات کے دن بھی اورتیرہویں ، چالیسویں پربھی ۔سو شریعت سے اس عمل کا حکم جان لینا چاہئے۔
    کسی کے گھر میت ہوجائے تو اس کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو چاہئے کہ اہل میت کے لئے کھانا تیار کرکے ان کے گھر بھیجے ، یہ عمل مسنون ہے ۔ جب جنگ موتہ کے دن حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’جعفر کے گھر والوں کیلئے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں وہ چیز پہنچی ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔‘‘(ابو داؤد)۔
    اسی طرح صحیحین میں یہ روایت موجود ہے :
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کیوجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں ، صرف گھروالے اورخاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ ہانڈی میں تلبینہ پکانے کا حکم دیتیں ۔ وہ پکایا جاتا پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا ۔ پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے ۔‘‘(بخاری)۔
    تلبینہ :یہ ایک غذا ہے جو سوپ کی طرح ہوتا ہے، جو آٹے اور چھان سے بنایا جاتا ہے، بسا اوقات اس میں شہد ملایا جاتا ہے، اسے تلبینہ اس لئے کہتے ہیں کہ اسکا رنگ دودھ جیسا سفید اور دودھ ہی کی طرح پتلا ہوتا ہے۔بعض لوگ اسے جو کی کھیر بھی کہتے ہیں۔
    مذکورہ دونوں احادیث سے اہل میت کیلئے کھانا پکانا ثابت ہوتا ہے مگر اہل میت کو کھانا کھلانے کیلئے40 دن متعین کرنا رسم ورواج میں سے ہے اور اگر40دن کو ثواب سمجھ لیا جائے تو پھر بدعت ٹھہرے گی۔ نبی کا فرمان ہے :
    ’’جس نے ہمارے دین میں کسی چیز کو ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں تو وہ چیز مردود ہے۔‘‘(مسلم)۔
    اسی طرح اہل میت کے یہاں جمع ہونا اور پھر ان لوگوں کیلئے اہل میت کا کھانا پکانا نہ صرف زمانہ جاہلیت کے عمل میں سے ہے بلکہ یہ نوحہ میں شمار ہے ۔
    ہم گروہِ صحابہ اہل میّت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے( ابن ماجہ)۔
    امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اہل میت کا کھانا بنانا، دوسروں کا ان کے یہاں جمع ہونا اس سلسلے میں کوئی چیز منقول نہیں اس لئے یہ کام بدعت اور غیرمستحب ہے (روضۃ الطالبین)۔
    اس لئے اہل میت کا میت کی وفات پہ تیجا، دسواں، تیرہواں ، چالیسواں یا کوئی اوراس طرح کا دن منانا بدعت ہے البتہ تعزیت کیلئے گھر آئے مہمان کی ضیافت کرنا اس سے مستثنیٰ ہے ۔اہل میت کو چاہئے کہ میت کی طرف سے فقراء ومساکین میں بغیر دن کے تعیین کے صدقہ کرے ۔
    قرآن خوانی اور ایصال ثواب :
    قریب المرگ شخص کے پاس بیٹھ کر یا قبر پر کھڑے ہوکر/بیٹھ کر یا گھروں میں اجتماعی شکل میں بیٹھ کر قرآن خوانی کرنا کتاب وسنت سے ثابت نہیں ۔ قرآن کی تلاوت کرکے میت کو اس کا ثواب ہدیہ کرنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ۔ قرآن تو زندوں کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔جب تک زندگی ملی قرآن پڑھا، سمجھا اوراس پر عمل کیا یا کسی کو ان باتوں کی توفیق نہ ملی ۔ جب قبر میں چلا گیا تو اس کتاب سے منکرنکیر نے امتحان لیا ۔ پاس ہوگیا تو خیروعافیت ،فیل ہوگیا تو ذلت ورسوائی ۔
     قرآن زندوں کے لئے ہے اس لئے زندہ لوگ اسے پڑھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی بنائیں۔ مردوں کے لئے قرآن پڑھناچھوڑدیں اور جان لیں اس کا ثواب کسی دوسرے کو ہدیہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جن احادیث میں میت کے لئے قرآن پڑھنے کا ذکر ہے وہ ضعیف ہیں اور اسکے جوازکے سلسلے میں علماء کے جو اقوال ہیں وہ بلادلیل ہیں ۔
    فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب :
    سورہ فاتحہ ایک عظیم سورت کا نام ہے اور یہ نماز کا رکن ہے ۔تعجب ہے لوگوں پر نماز کے فاتحہ کا انکار کرتے ہیں اور اسی نام سے مردوں کو ایصال ثواب کرتے ہیں جس کا دین میں کہیں اتہ پتہ نہیں ۔ فاتحہ خوانی دین میں ایک نئی ایجاد بدعت ہے ۔ میت کے نام پر گھروں میں جمع ہوکریا کھانا سامنے رکھ کر یا میت کی تدفین کے بعد ایصال ثواب کی نیت سے فاتحہ خوانی کی رسم انجام دی جاتی ہے ۔ نام خوبصورت کام بدعت وگمراہی والا ہے۔ بھلا فاتحہ یا قل یا بلا قل والی دوسری سورتوں سے میت کی بخشش کا کیا تعلق ؟ یا سورہ فاتحہ کے نام سے قل والی سورتوں کے پڑھنے کا کیا مطلب ؟ یا سورہ اخلاص کو اتنی بار اور دوسری سورتوں کو اتنی بار پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟
    کسی کی وفات ہوجائے تو اس کی تعزیت کریں یعنی اہل میت کو دلاسہ دیں اور میت کی مغفرت کے لئے دعا کریں اور میت کے رشتہ دار میت کے لئے جب چاہیں دعائے مغفرت کریں ، رسم ورواج اور غیرمشروع کاموں سے میت کو فائدہ نہیں پہنچتا۔
    نذرونیاز اور ایصال ثواب :
    میت کے لئے نذرونیاز کرنا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانور ذبح کرنا عبادت کے قبیل سے جو کہ سراسر شرک ہے کیونکہ عبادت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے ۔اللہ کا فرمان ہے 
     ’’میں نے انسانوں اور جناتوں کی تخلیق صرف اپنی عبادت کے لئے کی ہے ۔‘‘(الذاریات 56)۔
    ایک دوسری آیت میں ہے 
     ’’اے نبی !کہہ دیجیے کہ بلا شبہ میری نماز میری عبادت میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘ (الانعام 162) ۔
    جو لوگ غیراللہ کے نام سے نیاز کرتے ہیں ، غیراللہ کے لئے جانور ذبح کرتے ہیں ، غیراللہ کے کھانے پکاکر پیش کرتے ہیں ،ایسے لوگوں کو اللہ کا یہ فرمان جان لینا چاہئے ۔
    ’’بیشک اللہ نے تم پر مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے لیکن جو مجبور ہو جائے بشرطیکہ بغاوت کرنے والا اور نافرمانی کرنے والا نہ ہو تو اس پر گناہ نہیں، بے شک اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔ ‘‘ٌ (البقرۃ 173)
    اور نبی کریم کا فرمان ہے :
    ’’جو شخص اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی (تعظیم اور نذرونیاز) کے لئے جانور ذبح کرتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘(نسائی)۔
    ان چندآیات وحدیث سے ہمیں معلوم ہوا کہ عبادت کا سارا کام اللہ کے لئے انجام دینا چاہئے اور غیراللہ کے لئے پیش کئے گئے گیارہویں شریف، ربیع الاول کی شیرنیاں، رجب کا کونڈا، محرم کی سبیلیں، شعبان کے حلوے مٹھائیاں اور عرس و مزارات کے لنگر ، کھچڑے، دیگیں ، پوریاں ، بتاشے ، کھیراور ہر قسم کے نذرونیاز حرام ہیں ۔
    بدنی عبادات اور ایصال ثواب :
    کوئی زندہ آدمی کسی میت کی طرف سے نفلی نماز یا نفلی روزہ رکھ کر اس کا ثواب میت کو پہنچائے ایسی کوئی دلیل شریعت میں وارد نہیں  جبکہ بہت سے مسلمان میت کی طرف سے نمازیں ادا کرتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں اور ان کا ثواب مردوں کو بخشتے ہیں ۔ یہ عمل رسول اللہ یا اصحاب رسولؐ سے ثابت نہ ہونے کے سبب جائز نہیں اور اس طرح کرنے سے مردوں کو فائدہ بھی نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح ہزاروں لاکھوں بار کوئی وظیفہ پڑھ کر ، اذکار کرکے، تسبیح پڑھ کر، درود شریف پڑھ کر، تلاوت کرکے، طواف کرکے میت کو ایصال ثواب کرنا غیرمشروع ہے ۔
    ہاں میت کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے لیکن نمازوں کی کوئی قضا نہیں ۔ میت کی طرف سے چھوٹے روزوں کی قضا کے سلسلے میں میری مفصل تحریر بلاگ پرپڑھیں۔
    قبروں  پرچراغاں کرنا اور پھول چڑھانا:
    کچھ لوگ قبروں پر چراغاں کرنے اور اس پر پھول مالا، چادر چڑھانے کو باعث اجر اور میت کے حق میں مفید تصور کرتے ہیں جبکہ قبروں پر پھول مالا چڑھانا سنت سے ثابت نہیں اور قبروں پہ دیئے جلانے والا شریعت کی نگاہ میں لعنت کا مستحق ہے۔ ایک حدیث میں قبروں پر چراغ جلانے والے پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔
    اس حدیث کی تشریح میں صاحب ِ المرعاۃ فرماتے ہیں:
    ’’اس حدیث میں واضح تردید ہے ان قبوریوں کی جو قبروں پر قبے بناتے، ان کی طرف سجدے کرتے، ان پر چراغ جلاتے اور ان پر تعظیم واحترام کی خاطر پھول اور خوشبو رکھتے ہیں۔‘‘(المرعاۃ)۔
    ملا علی قاری قبروں پر چراغاں کی ممانعت کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
     ’’قبروں پر چراغاں کرنے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے اور اس چراغ سے کوئی فائدہ نہیں اور یہ جہنم کے آثار میں سے ہے اس لیے کہ قبروں کی ایسی تعظیم سے بچا جائے جیسا کہ قبروں کو مسجد بنائے جانے سے منع کیا گیا ہے(مرقات )۔
    جہا ں تک رسول اللہ کا کھجور کی شاخ کوقبر پررکھناہے تو یہ عمل آپ کے ساتھ ہی خاص تھا ،اس سے کوئی دوسرا اپنے لئے دلیل نہیں پکڑ سکتا ہے۔
    میت کی طرف سے عقیقہ:
    میت کی طرف سے عقیقہ کا ثبوت نہیں ملتا ۔ عقیقہ زندوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کوئی میت کو ایصال ثواب کی غرض سے اس کا عقیقہ نہ کرے ۔
    میت کی طرف سے قربانی:
    میت کی طرف سے قربانی دینے کے لئے وہی ثبوت پیش کئے جاتے ہیں جو نبی کی طرف سے قربانی دینے کیلئے پیش کئے جاتے ہیں اور نبی کی طرف سے قربانی دینے کا حکم ثابت نہیں ۔ ہاں کوئی اپنی قربانی میں میت کو شریک کرلے تو اس صورت کو علماء نے جائز کہا ہے ۔ اس سلسلے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو لوگ میت کی طرف سے قربانی دینا چاہتے ہیں وہ قربانی کا پیسہ میت کی طرف سے صدقہ کردیں ۔یہ ایسی صورت ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اس کی دلیل موجود ہے ۔ میت نے اگر قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو پھراس کا نفاذ ضروری ہے ۔
    صدقات وخیرات میں غیرشرعی طریقہ :
    بدعتی مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض مواقع سے روحیں صدقات وخیرات کا محتاج ہوتی ہیں اس وجہ سے ان موقعوں پر یہ لوگ ارواح کی جانب سے لوگوں میں خیرات تقسیم کرتے ہیں۔ اس عمل کی کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔
مزید پڑھیں:- - - -اخلاق ،سب سے بڑی قوت

شیئر: