Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بار بار حج کرنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے ؟

 فرض کیجئے کہ دنیا کے ایک فیصد افراد حج کے لئے پہنچ جائیں تو عرفات میں ایک کروڑ 20لاکھ افراد کووقوف کرنا ہوگا، اتنی بڑی تعداد کیلئے میدان عرفات ناکافی ہوگا
 
 
* * * شیخ عبدالعزیز بن بازؒ * * *
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بار بار حج کا بڑا ثواب ہے تاہم حالیہ برسوں کے دوران ٹرانسپورٹ سہولت کی وجہ سے حج مقامات پر رش بڑھتا چلا جارہا ہے۔ دنیا بھر سے افراد بڑی تعداد میں حج کیلئے پہنچ رہے ہیں۔ امن و امان کا ماحول بھی حج پر آمادہ کررہا ہے۔ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ طواف اور عبادت کے مقامات پر مرد و زن کا اختلاط بھی بڑھ رہا ہے۔ بہت ساری خواتین آزمائش میں ڈالنے والے اسباب سے پرہیز نہیں کررہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ خواتین بار بار حج سے اجتناب کریں۔ یہی انکے لئے زیادہ بہتر ہے۔ یہی انکے دین کے لئے زیادہ تحفظ کا باعث ہے۔ ایسا کرنے سے وہ  نقصان سے بچی رہیں گی۔ یہی رائے مردوں کیلئے بھی ہے۔
     اگر وہ دوسرے حاجیوں کو حج کا موقع مہیا کرنے اور اژدحام کم کرنے کی نیت سے ایک سے زیادہ بار حج نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ اگرنیک نیتی سے بار بار حج سے باز رہا جائے تو نیک نیتی کا اجر ضرور ملے گا۔ خا ص طور پر ایسے افراد جن کے ساتھ انکے ماتحت بھی حج پر جاتے ہوں اوران کی وجہ سے طواف، سعی اوررمی وغیرہ میں دیگر حجاج کو پریشانی لاحق ہوتی ہو۔ بار بار حج سے اجتناب کریں۔ یاد رکھیں کہ اسلامی شریعت کے دو بنیادی اصول ہیں۔ ایک تو اسلامی مفادات کا حصول ، اسکی تکمیل اور حتی الامکان اسکی نگہداشت میں مضمر ہے جبکہ دوسرا اصول  ہر طرح کے نقصانات اور برائیوں کے ازالے یا کمی کی کوشش میں مضمر ہے۔
    امت مسلمہ علماء ، صلحاء خصوصاً پیغمبر وں کی تعلیمات کا دائرہ انہی دو اصولوں کے اردگرد گھوم رہا ہے۔
    ٭ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین (ممتاز سعودی عالم ): حج اعلیٰ عبادت ہے اس میں بڑا اجر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  بار بار حج اور عمرے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایسا کرنے سے غربت اور گناہ ٹھیک اسی طرح دور ہوتے ہیں جس طرح لوہے اور چاندی کا میل بھٹی میں ڈالنے سے دور ہوتا ہے۔ بعض علماء اور مشائخ نے عصر حاضر میں ہر سال  حج سے منع کیا ہے۔ انکا موقف یہ ہے کہ حجاج کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ جدید ٹرانسپورٹ وسائل کیوجہ سے مقامات حج کا سفر آسان ہوگیا ہے، ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ عصری سہولتوں کی وجہ سے مطاف ، صفا و مروہ ، عرفات، منیٰ، مزدلفہ، جمرات اورقربان گاہ وغیرہ میں شدید اژدحام ہونے لگا ہے۔ یہ مناسب رائے ہے اس پر عمل سے نئے عازمین حج کیلئے اسلام کے اہم رکن کی ادائیگی کا راستہ ہموار ہوگا۔ فریضہ حج آسانی سے ادا کیا جاسکے گا۔ فرض ادا کرنے والوں کو مشقت کم ہوگی۔ اس پابندی سے ایسے افراد مستثنیٰ رکھے جائیں جو  مفید کام کررہے ہوں۔ مثال کے طور پر مبلغین، فوجی، حج انتظامات کی دیکھ بھال کرنے والے، خدام الحجاج اور ضیوف الرحمن کو سہولتیں فراہم کرنے والے اہلکار۔ میرا خیال ہے کہ  ایک مرتبہ حج سے ضیوف الرحمن کا فرض ساقط ہوجاتا ہے تاہم انکے بار بار ارض مقدس آنے اور فریضہ حج ادا کرنے میں بڑا فائدہ مضمر ہے۔
    ٭  سلمان بن فہد العودۃ (ممتاز سعودی عالم دین):  حج شرائط پوری کرنے والے ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں۔ جو حج کی فرضیت کا منکر ہوگا وہ  بااتفاق علماء کافر مانا جائیگا۔ نفلی کام اچھے ہیں۔ اللہ رب العزت نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر158میں کار خیر کی ترغیب یہ کہہ کر دی ہے کہ جو نفلی کام کریگا اللہ تعالیٰ اسکا شکر گزار ہوگا اور اسے نفلی کام کا اچھی طرح سے علم ہوگا۔ بعض نفلی کام انسان کی اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر نفلی نماز، نفلی روزہ ۔ عام حالات میں  دیگرافراد نفلی نماز اور نفلی روزے سے نہ تو متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی براہ راست فیض یاب ہوتے ہیں۔ بعض نفلی کام عوام کے لئے منافع بخش ہوتے ہیں مثال کے طور پرصدقہ خیرات وغیرہ۔ انسان جتنا زیادہ خیر خیرات کرے گا اتنا ہی زیادہ اسکے لئے اجر اوردوسروں کیلئے نفع کا باعث ہوگا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اچھے کاموں میں کوئی فضول  خرچی نہیں ہوتی۔ یہ  بات درست ہے لیکن ہر حال میں نہیں۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  سعد بن ابی وقاص کو اپنی تمام دولت کی وصیت کرنے پر حکم دیا تھا کہ وہ کچھ دولت اپنے پاس رکھیں کہ یہی انکے لئے بہترہے۔ یہ بخاری اور مسلم کی حدیث ہے۔ تیسرا نفلی کام یہ ہے کہ جس کا تعلق  انسان کا اپنی ذات ہی سے نہیں ہوتا بلکہ جگہ وغیرہ کے باعث دوسروں سے بھی ہوتا ہے۔ حج اور عمرہ اسی ضمن میں آتا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ مقامات حج، منیٰ ، مزدلفہ، عرفات اور حرم شریف کا رقبہ محدود ہے ۔ اوقات حج بھی متعین ہیں جنہیں نہ تو آگے بڑھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی پیچھے لیجایا جاسکتا ہے۔ سمجھدار افراد یہ بات بھی جانتے ہیں کہ اگر کبھی حج نہ کرنے والوں میں سے معمولی تعداد بھی حج کرنے لگے تو  ایسی صورت میں بڑے مسائل پیدا ہونگے۔ فرض کیجئے کہ دنیا کے صرف ایک فیصد افراد حج کے لئے ارض مقدس پہنچ جائیں تو میدان عرفات میں ایک کروڑ 20لاکھ حاجیوں کو9ذی  الحجہ کو وقوف عرفہ کرنا ہوگا۔ اتنی بڑی تعداد کیلئے میدان عرفات ناکافی ہوگا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے حاجی ایک دوسرے کے ساتھ بدسلوکی کریں گے۔ حاجی ان دنوں 0.1فیصد کے تناسب سے کسی بھی ملک سے ارض مقدس پہنچتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ انڈونیشیا جس کی آبادی 200ملین نفوس پر مشتمل ہے اس میں آباد مسلمانوںکو فریضہ حج ادا کرنے کے لئے ایک ہزار سال درکار ہونگے۔  ظاہر ہے یہ  نظریاتی مفروضہ ہے۔ ہر سال حاجیوں کی تعداد میں ہیبت ناک اضافے کی وجہ سے  مقامات حج کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اژدحام کی وجہ سے فریضہ حج اپنا تقدس اور  روحانی فضا سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ حج شور، ہنگامے ، لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہورہا ہے۔ سیکڑوں افراد  ایک دوسرے کے قدموں تلے کچل کر جاں بحق ہورہے ہیں۔ یہ سب  ایک فرض کی ادائیگی کے دوران ہورہا ہے۔  یہ کتنا المناک پہلو  ہے۔
    اصولی بات یہ ہے کہ حج جیسے مبارک سفر کا محرک ایمان افروز ہو۔ حج کا قصد ایمان کی تحریک  ہی سے ہوتا ہے۔ ہر سال یا ایک سال ترک کرکے دوسرے سال حج سے پیدا ہونے والے سنگین نتائج سے غفلت کیوںکر برتی جاسکتی ہے۔دنیا بھر سے اہل ایمان فرض حج ادا کرنے کے لئے ارض مقدس آتے ہیں۔ نفل حج کے لئے نہیں؟ آنے والوں میں بوڑھے، خواتین، کمزور، غریب اور مریض ہر  طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بار بار حج کرنے والے مقامی حاجی انکی پروا نہیں کرتے۔ انکی تکلیف کا خیال نہیں کرتے۔ ان کے یہاں اہم ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ جس بات کے وہ عادی ہوچکے ہیںوہ کریں۔ انہیں بار بار حج کی عادت ہوگئی ہے لہذا وہ ایسا کرتے ہیں۔
     ایسا کرنے کے لئے جعلی حج اجازت نامہ تیار کرنے، جھوٹ بولنے، قرضہ لینے ، اہل و عیال کی ضروریات کو نظر انداز کرنے  میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ بعض افراد نے تو حج کو تفریح کا ذریعہ بنالیا ہے۔ اگر موجودہ حج قوانین کے بموجب 5 برس سے پہلے کسی کو حج کی اجازت نہیں ہے تو ایسابوجوہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی سربرآوردہ علماء بورڈ کے فیصلے کو اساس بنایا گیا ہے۔ یہ پابندی حج کو منظم کرنے اور حج کی خواہش رکھنے والوں کی گروپ بندی کی نیت سے کیا گیا ہے۔
    بار بار حج کے حوالے سے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث قدسی بیان کی جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ایسا بندہ جسے میں نے جسمانی صحت عطا کی اور اسکی روزی میں وسعت بخشی۔ وہ 5 برس تک میرے پاس نہ آئے تو وہ محروم بندہ ہے۔ یہ روایت طبرانی، ابو یعلی، بیہقی اور ابن حبان نے روایت کی ہے۔ اس روایت کو ایک سے زیادہ ماہر حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ انسان کی صحت اور رزق میں برکت نیز راستے کاامن و امان قابل توجہ ہے تو یہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔ دوسرا پہلو دیگر افراد کے حقوق ، انکی ضرورتوںاور اپنے زیر کفالت افراد کے مفادات کی نگہداشت کا بھی ہے۔ اسی طرح ان افراد کی پاسداری کا بھی ہے جن کا اس کی ذات سے برادرانہ تعلق ہے میری مراد ان حاجی بھائیوں سے ہے جوحج کرنا چاہتے ہیں۔
    بہت سارے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ میرے تنہا حج پر جانے سے کسی کا کیا نقصان ہوجائیگا؟ ایک فرد کے اضافے سے آخر کونسی قیامت آجائیگی؟ میں اگر نہیں گیا تو میرے نہ جانے سے اسکا کیا فائدہ ہوجائیگا؟یہ عجیب و غریب قسم کی منطق ہے یہ خود پرست ذہنیت کا پتہ دیتی ہے۔ یہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی نشاندہی کرتی ہے۔
     اگر میرے اس مضمون کی سطور پڑھنے والوں میں سے ہر ایک یہ عہد کرلیں کہ وہ اپنے نفلی حج کا خرچ اپنے مسلم بھائیوں پر کردیگا اور اس جگہ سے بھی دستبردار ہوجائیگا جو حج پر جانے کی صورت میں وہ منیٰ ، عرفات،مزدلفہ ، خانہ کعبہ، جمرات ، راستوں ، سواریوں میں حاصل کرتا ہے تو ہم حج میں دیکھا جانیوالا رش کم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ حج کو آسان بنانے میں معاون بنیں گے۔ مسلمانوں کو اذیت ناک انجام سے بچانے اور مشاعر مقدسہ میں جان گنوانے سے بچانے میں مدد گار ثابت ہونگے۔حج پیکیج کا صدقہ حج ایام میں بڑے اجر و ثواب کا کام ہوگا۔ علاوہ ازیں مسلم ممالک میں آنے والے زلزلوں ، قحط سالیوں اور دسیوں برس سے نہ ختم ہونے والی جنگوں نیز قدرتی آفات سے متاثرین کی مدد کا ثواب غیر معمولی ہوگا۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے (الفتاوی الکبریٰ جلد 4صفحہ 465)  میں تحریرکیا ہے کہ جائز طریقے سے حج نفلی صدقے سے افضل ہے۔ اگر کسی کے ضرورت مند اعزہ ہوں تو انہیں خیرات کرنا بہتر ہے۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ اسکی رقم کے محتاج ہوں تو انہیں رقم دیدینا زیادہ افضل ہے۔ ابو مسکین کاکہنا ہے کہ سلف صالحین کی رائے تھی کہ بار بار حج سے صدقہ افضل ہے۔ یہی امام النخعی کا قول بھی ہے۔
    حالیہ دنوں میں جبکہ حجاج کرام فرائض حج کی ادائیگی کے سلسلے میں ناواقفیت، اژدحام اور بدنظمی وغیرہ کی وجہ سے مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے حالات میںبار بار حج پر پابندی لازماً ہونی چاہئے۔
مزید پڑھیں:- - - - -اخلاق ،سب سے بڑی قوت

شیئر: