Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام ، دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا داعی

اسلام اپنے افکارونظریات کو بزور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے

 

* * * مولانا کمال اختر قاسمی۔ علی گڑھ* * *
اسلام نام ہے زندگی گزارنے کے اُس طریقہ کاجو آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے پہلے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کا تھا،اور بعد میں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا،اسی طریقہ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا میں نبیوں کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا:
          ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیااور جس کی وحی آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کی گئی اور جس کا حکم موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔‘‘(شوری 13)۔
          ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرام ؑ کا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے:
        ’’ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔‘‘   (آل عمران19)۔
          ایسے عمومی دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں۔ ہر پسند اور کامیاب طریقہ کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔     
      ’’ اے نبیؐ! آپ کہہ دیجیے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔‘‘(الکہف29)۔
    مذہبی تعصب اور اسلام :
          اسلام اپنے افکارونظریات کو بہ زور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے،ارشادربانی ہے :
         ’’دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں ،سرکشی کے معاملہ میں ہدایت واضح ہو چکی ہے، جو معبودانِ باطل کا منکر اور اللہ پر ایمان رکھتا ہو،اس نے مضبوط سہارا تھام لیا،جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘(البقرہ256)۔
         دیگر مذہبی شعائر کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے:
         ’’اللہ کے علاوہ جن معبود کو یہ لوگ پکارتے ہیں،انھیں گالیاں مت دو،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جہالت کی بنیاد پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔‘‘(الانعام108)۔
          ہر انسان کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواپنی اپنی عبادت گاہوں سے والہانہ عقیدت ہوتی ہے،ان کے مسمار کر دینے سے ان فسادیوں کے تئیں اس کے دل میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے۔جب بھی اسے موقع ملتا ہے، اس کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور وہ تشددو فساد پر ا ترآتا ہے،جس سے پورا شہر اور ملک دہشت و فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔
          خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓنے کفار کے مذہبی معاملات کے تعلق سے جو معاہدہ لکھا، اس کے الفاظ اس طرح ہیں:
      ’’ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے،اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائیگی جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملہ میں قلعہ بند ہو تے ہیں،ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی اور نہ تہواروں کے موقعوں پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے۔‘‘(کتاب الخراج لابی یوسف)۔
          حضرت عمرؓ نے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو معاہدہ تحریر فرمایا، اس کے بعض اجزا اس طرح ہیں:
          ’’یہ امان ہے جو اللہ کے غلام امیر المومنین عمرؓنے اہلِ ایلیا کو دی۔یہ امان جان و مال، گرجا، صلیب،تندرست و بیمار اوران کے تمام اہلِ مذہب کے لیے ہے۔نہ ان کے گرجا میں سکونت اختیار کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گے،نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائیگی۔مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔‘‘(الفاروق)۔
          حضرت عثمان  ؓ نے ان تمام معاہدوں کو اسی طرح باقی رکھا جس طرح عہدِ رسالت،حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمرؓ کے عہد میں تھے۔
          ایک مرتبہ غیر مسلموں کی شکایت پر آپؓ نے اپنے گورنرولید بن عتبہؓ  کوایک تادیبی خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
          ’’عراق میں مقیم نجران کے باشندوں کے سردار نے آکر میرے پاس شکایت کی ہے اور مجھے وہ شرط دکھائی ہے جو عمرؓ نے ان کے ساتھ طے کی تھی۔میں نے ان کے جزیہ میں سے  30 جوڑوں کی تخفیف کر دی ہے۔انھیں میں نے اللہ جَلَّ شَانْہ کی راہ میں بخش دیا ہے اور وہ ساری زمین دے دی جو عمرؓ نے انھیں یمنی زمین کے عوض صدقہ کی تھی۔اب تم ان کے ساتھ بھلائی کرو کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ذمہ حاصل ہے،عمرؓ نے ان کے لیے جو صحیفہ تیار کیا تھا، اسے غور سے دیکھ لواور اس میں جو کچھ درج ہے وہ پورا کرو۔‘‘( کتاب الخراج) ۔
          کچھ غیر مسلموں نے حضرت علی  ؓ  سے ان کے گورنر عمرو بن مسلمہ  ؓ  کی سخت مزاجی کی شکایت کی تو حضرت علی  ؓ  نے گورنر کو لکھا :
          ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے علاقہ کے غیر مسلموں کو تمہاری سخت مزاجی کی شکایت ہے،اس میں کوئی بھلائی نہیں ،نرمی اور سختی دونوں سے کام لولیکن سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے،ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو۔‘‘
          اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو۔
     دشمنوں کے ساتھ عفو ودر گزر کا معاملہ  :
           دنیا کے ذخیرئہ اخلاق میں مذہبی رواداری کے تعلق سے یہ بات نادر الوجود ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے دشمنوں، بطور خاص مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزرکے برتاؤ کو لازمی قرار دیا ہو۔ اسلامی تعلیما ت میں اس طرح کے ہزاروں عملی ثبوت تاریخ کے صفحات پہ جلی قلم سے ثبت ہیں۔
          قرآن مجید میں ارشاد ہے:
        ’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیاہے۔‘‘(حمٓ سجدہ43)
          آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لائی ہوئی ان تعلیمات کا مطالعہ کیجیے جو صحیح ترین سندوں کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں ،اندازہ ہو گا کہ دشمنوں کے ساتھ عفوو درگزر ،ہمدردی و غمخواری اور حسن سلوک کی جو مثالیں پیش کی ہیں، معلوم دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتیں۔نمونہ کے لیے چند واقعات اختصار کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:
          ٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی کبھی انتقام کا معاملہ نہیں کیا۔
          اہلِ مکہ نے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو ظلم اور زیادتیاں کی ہیں،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ متعدد مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ایک مرتبہ تمام قبائل کے افراد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے گھر میں گھس آئے۔بالآخر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے محبوب شہراور خانہ کعبہ کو الوداع کہنا پڑالیکن9سال بعد جب اسی شہر مکہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبضہ ہو گیااور سامنے وہی ظالم و جابر اب بھی موجود تھے جنہوں نے اسی شہر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پورے خاندان سمیت شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں محصور کر کے مکمل بائیکاٹ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت میں پوری توانائی صرف کر دی تھی،جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی شہر مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تولوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پرانے مظالم کا بدلہ لیں گے لیکن ہادیٔ برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے توقع کے خلاف یہ اعلان کردیا:
     ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں،اللہ تمہاری غلطی کو معاف کرے گا،جاؤ تم سب آزادہو۔‘‘ (ابن ہشام)۔
         ٭ وحشی، جورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عزیز ترین چچا کا قاتل،ھند زوجۂ ابو سفیان، جس نے حضرت حمزہؓ  کا سینہ چاک کر کے دل و جگرکوچبایاتھا، سب کو معاف کردیا(بخاری، کتاب المغازی،باب قتل حمزہ،بخاری کتاب الفضائل،ذکر ھند)۔
         ٭ حضرت عکرمہؓ  جو اسلام کے شدید ترین دشمن ابو جہل کے بیٹے ہیں،اسلام لانے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی رکھنے میں ابو جہل سے کم نہ تھے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا(موطا امام مالک ،کتاب النکاح،باب نکاح المشرک)۔
      دوسری روایت میں وارد ہے کہ سیدنا عکرمہ ؓکے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری تھے:
          مَرْحَبًا بِالرَّاکِبِ الْمُہَاجِرْ۔
    ’’اے ہجرت کرنے والے سوار خوش آمدید۔‘‘(مشکوٰۃ کتاب الادب،باب المصافحۃ والمعانقہ،بحوالہ ترمذی)۔
          ٭ عمروبن وہب جس کو صفوان بن امیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل پرمامور کیا تھا،فتح مکہ کے روز ڈر کے مارے جدہ بھاگ گئے۔صفوان بن امیہ ہی کے کہنے پر،ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپس بلا کر معافی عام میں شامل کیا( سیرت ابن ہشام)۔
     ٭ ہباربن الاسود جس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ  کو جب وہ حاملہ تھیں،جان بوجھ کر دشمنی کی وجہ سے اونٹ سے گرا یا،جس سے ان کو سخت اذیت پہنچی اور حمل ضائع ہو گیا۔فتح مکہ کے روز جب ہبار قبضہ میں آئے تو ان کو بھی معاف کر دیا گیا( اصابہ،ذکر ھبار بن الاسو د)۔
          ٭ ابو سفیانؓ جو دشمنانِ اسلام کے سردار تھے،فتحِ مکہ کے روز ان کو صرف معاف ہی نہیں کیا گیابلکہ یہ اعلان کردیاگیا کہ جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کا قصور بھی معاف ہو جائے گا (بخاری ومسلم،فتح مکہ)۔
         ٭ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اشعث بن قیس مرتدین کے ساتھ ہوگئے تھے۔ وہ جب گرفتار کر کے حضرت ابو بکرصدیقؓ کے سامنے حاضر کیے گئے، تو اشعث نے توبہ کر لی۔حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان کو معاف کر دیا(خلفائے راشدین ،یعقوبی )۔
    اسلام اور انسانی برادری:
          ٭اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے، جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر وفساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری ہوئی دنیاجنت نشان بن جائے۔محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے، د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی۔آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
          «  ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤاور ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو(بخاری کتاب الادب)۔
          «  جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا(ایضاً)۔
      «  تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا(حاکم مستدرک ،کتاب البر والصلۃ)۔
          اسلام کی دی ہوئی رافت ورحمت کی تعلیم میں انسان کے ساتھ جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اللہ کے رسول کا ارشاد ہے:
    ’’جو انسان کوئی درخت لگائیگا اس میں سے جو انسان یا پرندہ بھی کھائیگا،اس کا ثواب اس لگانے والے کو ملے گا۔‘‘(بخاری،کتاب الادب ،باب رحمۃالناس والبھائم )۔
          ٭ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا جس نے ایک جانور کے ساتھ حسن سلوک کیا تھا،تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس کے اس کام پر بھی ثواب ملا۔صحابہؓ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !کیاجانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے میں ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ’’ ہر اس چیز کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے جس میں زندگی کی تری (ترجگر) ہے۔‘‘ (بخاری،کتاب الادب ،باب رحمۃالناس والبھائم)۔
              ٭ ایک غیر مسلم بوڑھے شخص کو حضرت عمرؓ نے بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ،آپؓ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر پوچھا :تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟اس نے جواب دیا :ٹیکس ادا کرنے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔حضرت عمرؓ اس کو اپنے گھر لے گئے ،کچھ دیا اور خزانہ کے انچارج کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ اس کی اور اس جیسے لوگوں کی دیکھ بھال کیا کرو۔اللہ کی قسم یہ انصاف نہیں کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم لوگ کھائیں اور بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں۔قرآن میں فقراء  ومساکین کے لیے صدقہ کی اجازت ہے۔فقراء تو وہی ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ لوگ غیر مسلم مساکین ہیں۔ان سے جزیہ نہ لیا جائے اور مسلمانوں کے بیت المال سے ایسے لوگوں کے لیے وظیفہ جاری کر دیا جائے(کتاب الخراج)۔
مزید پڑھیں:- - - -بار بار حج کرنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے ؟

شیئر: