Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ اور ترکی ۔۔۔کیا بائیکاٹ کی راہ پر چل پڑے؟

3اگست 2018ء جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبار عکاظ کا اداریہ نذر قارئین ہے۔
    
    حالیہ ایام کے دوران امریکہ اور ترکی کے درمیان بحران دھماکہ خیز شکل اختیار کرگیا۔ ترکی نے جب امریکی پادری اینڈروبرنسن کی رہائی سے متعلق امریکہ کا مطالبہ مسترد کیا تو دونوں ملکوں کے درمیان بحران کا ماحول برپا ہوگیا۔ ڈیڑھ برس قبل امریکی پادری کو گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا تھا۔ امریکہ کا مطالبہ مسترد کرنے پر ان دنوں ترکی اورامریکہ کے تعلقات میں زبردست انحطاط آگیا ہے۔ امریکہ نے ترکی کے وزیر انصاف اور وزیر داخلہ کے اثاثے ضبط کرنے اور ان پر پابندیاں عائد کرنے کے احکام جاری کردیئے۔ اس سے لگتا ہے کہ آنے والے ایام میں زیادہ ہنگامہ خیز مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ ترک حکومت امریکہ کے اس انداز سے ناراض ہے اور وہ اسی جیسے اقدامات کرکے امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی باتیں کررہا ہے۔
    غالباً اس بحران نے جسے نیٹو کے 2اتحادیوں کے تعلقات میں انتہائی خطرناک مانا جارہا ہے  اور جو دوطرفہ تعلقات میں زبردست شکست و ریخت کا باعث بنا ہے اپوزیشن اخبار جمہور یت کو یہ تحریر کرنے کا حوصلہ دیدیا کہ امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں تاریخی بائیکاٹ شروع ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے دی گئی دھمکیوں اور ترکی کے خلاف لب و لہجے کے استعمال میں شدت زیادہ سنگین منظر نامے کا پتہ دے رہی ہے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی پادری کے بحران نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔ وجہ یہ ہے کہ دونوںممالک متعدد امور پر ایک دوسرے سے مختلف چل رہے تھے ۔دونوں کے باہمی تعلقات میں کوئی گرم جوشی نہیں تھی۔ ان میں شامی بحران، ترکی میں امریکی قونصل خانوں کے مقامی اہلکاروں کی گرفتاری اور ترکی کے معروف مبلغ دین فتح اللہ گولن کا معاملہ سرفہرست ہے۔ آنے والے لمحے ہی بتائیں گے کہ یہ بحران کس حد تک جائیگا۔ گو مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ معاملہ شدت ہی اختیار کریگا۔
مزید پڑھیں:- - - -سعودی عرب اور مغرب کا تمدن

شیئر: