Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دُم پر پاؤں

***جاوید اقبال***
یہی سوال میںنے چند برس قبل آزاد کشمیر کے اُس وقت کے صدر سردار یعقوب خان سے کیا تھا۔ تسلی بخش جواب نہ ملا۔ پھر یہی سوال میں نے آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق سے بھی کیا تھا جب وہ چند ماہ پیشتر ریاض آئے تھے۔ مناسب جواب نہ مل سکاء پھر جب میں گزشتہ برس معمول کی تعطیلات پر لاہور میں تھا تو انڈس واٹر کمیشن کے لاہور کے دفتر میں گیا اور پاکستان کی طرف سے مامور کمشنر آصف بیگ سے بھی دوران ملاقات یہی سوال کیا۔ ان کا جواب مطمئن نہ کرسکا اور آج جب وفاقی وزیر برائے اطلاعات علی ظفر اس مسئلے پر پریس کانفرنس کررہے تھے تو یہی سوال ایک بار پھر میرے ذہن میں کلبلاتا اُٹھ آیا اور جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ میرا بس ایک ہی سوال تھا جس کا جواب دیتے وقت ان ساری شخصیتوں کی زبانیں لکنت کا شکار ہوئی تھیں۔ میرا سوال یہ تھا کہ جب ہندوستان کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کررہا تھا تو ہمارے اس وقت کے پاکستانی اور کشمیری رہنما خرگوشوں کے ہمراہ کیوں جا سوئے تھے۔ ہندوستان نے اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز 2007ء میں کردیا تھا۔  اسے 2016ء میں پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا۔ یکایک پاکستان کو 4 برس بعد خیال آیا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرکے ہندوستان یہ منصوبہ تعمیر کررہا ہے۔ چنانچہ عالمی بینک تک رسائی حاصل کی گئی کیونکہ معاہدے میں وہی ثالث بنا تھا۔ اکتوبر 2011ء میں ھیگ کی مستقل عدالت نے تعمیر رکوا دی۔ اگلے 2 برس قیامت کے تھے۔ ہمارا انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ انتہائی فرمانبرداری سے اجلاسوں میں شرکت کرتا پاکستان کا مقدمہ ’’لڑتا ‘‘ رہا اور اس دوران میں ہندوستان کے کامیاب اور مفید دورے بھی کرتا رہا۔ 
بات چیت طویل اور خفیہ ہوتی اور پھر فروری 2013ء میں ثالثی عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ہندوستان کشن گنگا کے سارے پانی کا رخُ موڑ کر اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے تاہم وہ یہ بات یقینی بنائے کہ نیلم جہلم میں جانے کے لیے اتنا پانی ضرور چھوڑ دے جس سے ماحولیات میں تبدیلی نہ آئے۔ چنانچہ ہندوستان نے ڈیم کی تعمیر کا دوبارہ آغاز کردیا۔ سید جماعت علی شاہ رات کی تاریکی میں بڑی خاموشی سے پاکستان چھوڑ گیا اور کینیڈا سے استعفی بھجوا دیا۔ وہ اپنے واجبات اور پنشن کی وصولی کے لیے بھی نہ پلٹا۔ شنید ہے کہ بڑے چین سے زندگی بسر کررہا ہے۔ اس کے بینک کے کھاتے میں لاکھوں ڈالر اس کے پاکستان چھوڑنے سے پہلے ہی ڈال دیئے گئے تھے۔ 30 مارچ 2018ء کو ہندوستانی وزیراعظم نرنیدرا مودی نے کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کردیا۔ 110 میگا واٹ کے 3 یونٹ مجموعی طور پر 330 میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں۔ اس کے بعد وہی پانی موڑ کر وولر جھیل کا خزینہ بھرا جارہا ہے۔ بچا کھچا نیلم جہلم میں گرایا جاتا ہے جو بہتے بہتے جہلم شہر تک پہنچتا ہے تو بے وجود ہوجاتا ہے۔ دریا کا وسیع پاٹ جو کبھی منہ زور الہڑ لہروں کی داستانوں اور اٹھکیلیوں کا امین ہوتا تھا آج پیاس اور جھینگروں اور بچھوؤں کی اداس کہانی کہتا ہے۔ 
بین الاقوامی کشن گنگا ڈیم سے صرف 9 مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی پاکستانی دریائے نیلم جہلم کے لیے چھوڑ رہا ہے جو ازحد ناکافی ہے۔ پاکستان کے اعتراضات کو طفلی تسلی دینے کے لیے ہندوستان نے کہا کہ وہ ڈیم کی بلندی 98 میٹر کی بجائے 37 میٹر کردے گا لیکن اپنی اس پیشکش کو عملی جامہ پہنائے بغیر اس نے ڈیم کی تعمیر سرعت سے جاری رکھی۔ تب اگست 2016ء میں پاکستان نے عالمی بینک کو درخواست کی کہ وہ ثالثی کے لیے عدالت کا تقرر کرے اور دریائے چناب پر زیر تعمیر رتلے ڈیم کے ہندوستانی منصوبے پر بھی نظر ثانی کرے۔ ہندوستان نے پاکستان کی تجویز مسترد کردی اور یہ بہانہ کیا کہ پاکستانی اعتراض تکنیکی نوعیت کا ہے اور اس کے لیے غیر جانبدار ماہر کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ہماری حکومت نے ہندوستانی تجویڑ کو یہ ماننے سے انکار کردیا کہ ایک غیر جانبدار ماہر کا فیصلہ ہندوستان ماننے سے انکار کردے گا۔ پھر ہندوستانی جارحیت ایک اور شکل میں بھی ظاہر ہوئی ہے۔ مقبوصہ کشمیر میں کنٹرول لائن سے چند ہی میٹر کی دوری اور 11 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر درہ زوجیلا ہے۔ اس میں بھی ایک سرنگ کی کھدائی کا کام جلد شروع کیا جائے گا۔ ہندوستان کی کوشش ہوگی کہ یہ منصوبہ جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ وہاں سے ہندوستان پاک چین مشترکہ تجاری راہداری  سی پیک پر نظر رکھے گا۔
ہندوستان نے مقبوصہ جموں و کشمیر میں 9 بڑے اور 30 چھوٹے ڈیم تعمیر کرنے ہیں۔ پاکستان کا 65 فیصد پانی روک دیا گیا ہے۔ سندھ ، چناب اور جہلم کے پانی پر اپنا حق لینے کے لیے پاکستان نے ہندوستان سے 113 مرتبہ مذاکرات کئے ہیں۔ ہمارے وطن کی 60 فیصد معیشت زراعت سے وابستہ ہے اور ہمارے اس پڑوسی نے ہم پر ایک دردناک عذاب مسلط کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے کھیتوں کو 60 فیصدپانی ٹیوب ویل سے ملتا ہے۔
1947ء میں تشکیل پاکستان کے وقت 300 سے بھی کم ٹیوب ویل سارے ملک میں تھے۔ آج صرف پنجاب میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح مزید گر رہی ہے۔ ٹیوب ویل کے وسیع پیمانے پر استعمال سے برقی توانائی کا بحران شدید تر ہورہا ہے۔ اگلی دہائی میں پانی کی قلت اور سیلابوں کی تعداد میں اضافے سے زمین کی زرخیزی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔ لیکن وہ سوال تو وہیں ہے۔ کشن گنگا ڈیم پاکستانی پنجاب کی زندگی اور روئیدگی کے لیے موت کا پیغام ثابت ہورہا ہے اور اس کی تعمیر 2007ء سے 2018ء تک کے 11 برسوں میں ہوتی رہی اور ان سالوں میں 3 حکمران ہم پر مسلط رہے ، پرویز مشرف ، آصف زرداری اور محمد نواز شریف۔ تینوں اقتدار کی باہمی جنگ کا تماشا دنیا کو دکھاتے رہے، سودے ہوتے رہے۔ کسی کا دھیان اس طرف نہ گیا کہ ازلی دشمن پڑوسی قوم پر پیاس کی بیچارگی آہستہ آہستہ مسلط کررہا ہے۔ یہ ان کا مجرمانہ سکوت تھا یا دانستہ لاپرواہی اگلے چند برسوں میں نازل ہونے والے قحط اور پیاس کی ذمہ داری کون اپنے سر لے گا؟ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم تعمیر کرنے کے لیے فنڈ قائم کردیا ہے لیکن یہ ان کا فرض نہیں۔ وہ سب سے پہلے وہ فریضہ ادا کریں جس کی ادائیگی ان پر لازم ہے۔
ثاقب نثار ان تینوں کو عدالت کھینچ لائیں اور مشترکہ تحقیقی کمیشن قائم کرکے معلوم کرائیں کہ اس وطن دشمنی کا کون ذمہ دار ہے۔ 22 کروڑ معصوموں پر عذاب حیات لانے والے یا لانے والوں کو نشان عبرت بنائیں۔ مفت مشورہ !
جسٹس ثاقب نثار جماعت علی شاہ کو گرفتار کرائیں اور پھر اس کی دم پر پاؤں رکھیں !  صیغہ راز کا بہت کچھ سرعام آجائے گا۔
 

شیئر: