Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران کیلئے چیلنجز نئے نہیں

***سید شکیل احمد ***
          ان دنو ں میڈیا پر یہ چرچا ہے کہ متو قع وزیر اعظم عمر ان خان کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔  اس میں شک نہیں کہ  ہر نئی بننے والی حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہوا کرتا ہے۔ انتخابات میں جو سیاسی جماعتیں حصّہ لیا کر تی ہیں وہ پہلے سے ان مشکلا ت اور تکا لیف کا ادرا ک لئے ہو تی ہیں  چنانچہ کوئی پا رٹی ایویں ہی انتخابات میں نہیں کو دا کرتی۔ وہ ان تما م چیلنجز کا سامنا اپنی صلا حیتو ں سے کرنے کا عزم لیکر ہی معرکہ انتخابات میں کودا کرتی ہیں۔یہ انو کھی بات نہیں  کہ یہ راگ الا پا جا رہا ہے کہ آئندہ حکومت کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ ے گا ۔ انھی چیلنجز کوشکست دینے کیلئے سیا سی جماعتیں پہلے سے تیا ریا ں کیا کرتی ہیںجس کا وہ اظہار اپنے منشور کے ذریعے کرتی ہیں مثلا ًپا کستان میں بڑا مسئلہ غربت کا ہے جس کی بنیا دی وجہ بے روزگا ری ہے۔متوقع وزیر اعظم عمر ان خان نے غربت کے خاتمے کیلئے ایک پر وگرام اپنے منشورمیں پہلے ہی دید یا ہے ان کا قوم سے وعدہ ہے کہ وہ برسر اقتدار آکر ایک کروڑ ملا زمتیں فراہم کر یں گے۔ جب وہ اپنے اس پر وگرام پر عمل کر یں گے تویقینا پاکستان خوشحالی کی صف میںشامل ہو جا ئے گا۔اب صرف عمل کی بات رہ گئی ہے، جو عناصر مشکلا ت ، چیلنجز یا دشواریو ں کا  رٹا لگا رہے ہیں یا تو وہ عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان مشکلا ت کی مو جو دگی میں عمر ان خا ن نے جو وعدے کر رکھے ہیں ان کو پورا کر نا پوری طرح ممکن نہیں ہوگا یا پھر یہ آگاہی پھیلا رہے ہیں کہ عمران خا ن میں چیلنجوںسے نمٹنے کی صلا حیت نہیں ہے ۔ 
عمران خان ماضی میں کرکٹ ٹیم کے محض کھلا ڑی نہیں تھے بلکہ وہ ایک کا میا ب کپتان بھی ثابت ہو ئے ہیں۔ ان کی قیا دت میں پا کستان کی کر کٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کا میدا ن ما را۔1992ء کے ورلڈ کپ کر کٹ ٹورنامنٹ کا جائزہ لیا جا ئے تو بحیثیت کرکٹر ان کی کا رکردگی عمدہ نہیں تھی لیکن ان کو ٹیم کی عمدہ قیادت کرنے کا کریڈٹ جا تا ہے کیونکہ ٹیم کے کپتا ن ہی کی صلا حیت ہو تی ہے کہ کسی قسم کا میدان ہو اس معرکہ آرائی میں کپتان ہی کی منصوبہ بندی اور قیادت و صلا حیت پانسہ پلٹتی ہے ۔اب تو وہ اپنی سیا سی ٹیم کے کپتا ن ہیں اور خوب اچھی طر ح کھیل رہے ہیں۔ جس طرح ان کو کرکٹ کے کو چ اچھے ملے تھے اسی طر ح ان کی سیا ست کے کوچ بھی عمدہ لگ رہے ہیں ۔
          اگر 1992ء کے ورلڈکپ کا تجزیہ کیا جا ئے تو شروع شروع میں پاکستانی کر کٹ ٹیم کی کا رکر دگی مایوس کن تھی۔ ایسا نظر آتا تھا کہ پا کستانی ٹیم ٹورنا منٹ سے یکسر باہر ہو جا ئے گی مگر کوارٹر ،سیمی فائنل ، پھر  فائنل میں جو کھیل ہوا اس سے ثابت ہو ا کہ خوش قسمتی بھی ساتھ دیتی ہے ۔ اب بھی ان کے سامنے مختلف اشکا ل میں ہیبت ناک عفریت قدم قد م پر کھڑے نظر آجا تے ہیں لیکن ہر مرتبہ یہ رکا وٹیں خوش قسمتی سے دور ہو جا تی ہیں۔مثلاً وہ لا ہو ر کے حلقہ 131سے سعد رفیق کے مقابلے میں تقریباً 858 ووٹوں سے کا میا ب ہو ئے تھے مگر سعد رفیق کی جانب سے حلقہ کھلوانے کی درخواست پر چند تھیلو ں کی گنتی ہو ئی تو اس میں عمر ان خان کے ووٹ کم ہو کر 680کی برتری رہ گئی ، جس پر سعد رفیق نے لا ہو ر ہائی کورٹ سے رجو ع کر کے اس کے حکم پر اپنے حلقے میں دوبارہ گنتی شروع کر ائی۔ ابھی گنتی ہو رہی تھی کہ انہوں نے ایک  مرتبہ پھر یو ٹرن لیا اور وہ سپریم کورٹ گنتی رکوانے چلے گئے اور سپریم کو رٹ نے ان کی درخواست پر لا ہو ر ہائی کو رٹ کا فیصلہ معطل کر دیا جس سے دوبارہ گنتی کا عمل رک گیا ، حالانکہ انتخابی عمل کے دوران جب اپوزیشن جما عتو ں کی جانب سے دھاندلی کا شور اٹھا تھا تب ہی عمر ان خان نے بڑے طمطر اق سے کہا تھا کہ انھو ں نے گزشتہ انتخابات میں صرف 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا جو نہیںکھولے گئے ، ان کی طرف سے کوئی اعتراض نہیںہے حلقے کھلو ائے جا ئیں۔ بے شک پور ے پاکستان کے حلقے کھلوالئے جا ئیں۔ حیر ت ہوئی کہ جب لا ہو ر ہا ئی کو رٹ میں سعد رفیق کی درخواست کی سما عت ہوئی اس وقت عمران خان یا ان کے وکیل کی طر ف سے کوئی موقف نہیں آیا مگر جیسے  ہی گنتی کا آغاز ہو ا تو انھو ں نے تمام حلقے کھولنے کے اعلان سے یو ٹرن لیتے ہو ئے سپر یم کورٹ کا رخ کرلیا ۔خیر اب خان صاحب کے یو ٹر ن کی پالیسی کے عوام عادی ہو گئے ہیں، تاہم لوگ کہتے ہیں کہ عوام کو اب یہ دعا کر نی چاہیے کہ خان اپنے منشور اور قوم کی قسمت سنوارنے کے دعوؤں ووعدوں سے یو ٹرن نہ لیں ، لیکن ان کی حالیہ بعض تقاریر سے اندا زہ ہو تا ہے کہ وہ یو ٹرن کی پا لیسی کے مضمر ات ونقصانا ت کا ادراک رکھتے ہیں کیو ں کہ پارٹی کی طر ف سے وزیر اعظم کی باقاعدہ نا مزدگی کے مو قع پر انھو ں نے جو خطا ب فرمایا تھا کہا تھا کہ روایتی حکمر انی نہیں ہو گی بصورت دیگر عوام اس کورد کردیں گے انہیں مثالی کا رکردگی دکھا نا ہو گی ۔
عمر ان خان نے اپنے انتخابی منشور کے اعلا ن کے وقت خارجہ پالیسی کا بھی اعلا ن کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ دباؤ سے پاک ، آزاد خارجہ پا لیسی پر عمل کر یں گے ساتھ ہی انھو ں نے عرب ممالک ، ایران ، اور  ہند کے ساتھ بہترین تعلقات کے قیا م بارے میں اپنے ارادوں کا ذکر کیا تھا بعد ازاںایک اور موقع پر انھو ں نے کہا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اپنا مصالحتی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بہر حال یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کر تو توں کا بھی سامنا ہے ۔پاکستان کے قرضے کے سلسلے میںآئی ایم ایف کے پاس جا نے سے پہلے امریکہ نے یہ ڈگڈگی بجا دی ہے کہ جو قر ضہ پاکستان کو دیا جا ئے وہ چین کا قرضہ اتارنے کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔ امریکہ نے یہ جو ڈونڈی پیٹی ہے وہ بظاہر یہ لگ رہی ہے کہ وہ یہ سمجھتاہے کہ پاکستان نے سی پیک کے منصوبہ پر چین سے قرضہ لیا  ہے اور آئی ایم ایف کے قرضہ کی رقم سے چین کا قر ضہ اتار ا جا ئے گا ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔عمر ان خان جانتے ہیںکہ امر یکہ اچھی طر ح جا نتا ہے کہ اس رقم کا چین کے قر ضے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو اصل بیر سی پیک کے منصو بے سے ہے جس کی مروڑ میں اس طر ح  کا ن دبانے کی سعی بد کی گئی ہے ، سی پیک کی مروڑ کچھ دوسری طاقتوں کوبھی ہے۔ انھو ں نے اپنی جس خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کیے ہیں ، اس میں محسو س ہو رہا ہے کہ  ہند کے ساتھ ان کا دور اقتدار کامیاب رہے گا۔ 
عمر ان خان کو نو از شریف سے زیادہ ہند میں مقبولیت حاصل ہے ۔وہا ں کرکٹ کے شید ائی بھی بہت ہیں اور جاذب نظری کی وجہ سے ان کی ہند کی شو بز دنیا میں بھی پذیرائی  کا فی گہر ی ہے۔ علا وہ ازیںعمر ان خان نے بہتر تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہندمیں ان کے کافی دوست ہیں ۔ اسلئے توقع ہے کہ وہ مستحکم قدمو ں کے ساتھ ہند کی طر ف سے دوستی کے ایک ہا تھ کے جو اب میں دونو ں ہاتھ احتیا ط سے بڑھائیں گے۔ نو از شریف کی طرح لڑکھڑا تے نہیں بڑھیںگے ورنہ مو دی کے یا ر کا طعنہ پھیل سکتا ہے ۔
 

شیئر: