Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہت ہو چکا احتجاج ، اب نہیں

***سید شکیل احمد***
یہ انقلاب زمانہ ہی تو ہے کہ عام انتخابات میںبڑے بڑے سیاسی برج زمین بوس ہوکررہ گئے اس سیاسی کا یا پلٹ میں عمر ان خان کو انتہائی کٹھن امتحان سے گزر نا پڑے گا ۔ عوام نے عمر ان خان سے ایک ایسی آس لگائی ہے جو تحریک پاکستان کے وقت مسلما نا ن ہند کو مسلم لیگ سے تھی۔ اس امر کا حساس عمر ان خان کو بھی کر لیناچاہیے کہ ایسا انقلا ب قیا م پا کستان کے وقت ہی رونما ہو اتھا ۔ اب کہا جا تا ہے کہ ایوب خان کے خلا ف تحریک اور بھٹو کی الیکشن میں کا میا بی بھی ایک انقلاب تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ جولائی2018ء کا یہ انقلا ب اس سے بڑھ کر رہے۔ تب بھی بڑے بڑے سیا سی ستون ڈھے گئے تھے مگر اس دفعہ کچھ اور ہی ہو ا ہے۔بہر حال انتخابات بھی ہ ہوگئے اور تقریبا ًتما م سیا سی جماعتوں سوائے تحریک انصاف کے سبھی جماعتو ں نے دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے اس طر ح انتخابات کے نتائج بھی متنا زعہ ہو چلے ہیںویسے بھی انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنا زعہ فضا  کے گمبھیر سائے میں گھرے ہو ئے تھے۔ انتخابی نتائج کے بارے میں جو الزامات ہیں وہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ سیا سی صورت حال دھر نوں کے موسم سے بھی زیا دہ مبہم ہو سکتی ہے ، کیو نکہ نتائج کے دوران ہی مسلم لیگ ن نے فارم 45کی عدم دستیا بی کے  حوالے سے دھا ندلی کا الزام جڑا تھا اور اس کے فوری بعد پی پی سمیت دیگر 6جما عتو ں نے بھی ایساہی الزام لگا دیا ِ ،گویا سب کو ایک ہی نو عیت کی شکا یت ہوئی ۔
          حزب اختلا ف کی جا نب سے موجو د ہ دھا ندلی کا واویلا اور سابق انتخابات کے نتائج میں دھاندلی کی ہا ہا کار میں ایک بڑا فرق ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں کسی جا نب سے دھاندلی ، اس کے غیر شفافیت اور جانبداری کے الزاما ت نہیں لگے تھے ۔ خود عمر ان خان نے نتائج کو قبول کیا تھا ، بلکہ تحریک انصاف کی جانب سے جیتنے والو ںکو مبارک با د دی گئی تھی ۔ نواز شریف نے کا میابی کے بعد ان سے عیادت کے حوالے سے ملا قا ت کے دوران باہمی تعاون کی دعوت بھی دی تھی جس کو عمر ان خان نے قبول کیا تھا تاہم تقریبا ایک ما ہ بعد عمر ان خان نے دھاندلی کی تحریک یکا یک شروع کر دی جس کو انھوں نے دھر نا ، پھر پانا ما اور آخرمیں منی لانڈرنگ میں بدل کر رکھ دیا کیوں کہ وہ کسی الزام کو ثابت تونہ کر سکے البتہ انھو ں نے عوام کا سیا سی طورپر اور ایک بڑی تبدیلی کے نا م پر خون گرمائے رکھا جس میں وہ کا میاب بھی رہے ۔
جب عمر ان خان نے احتجا ج کا طریقہ دھرنا سیا ست میںڈھونڈنکالا تھا اس وقت بھی ان کا لمو ں میں ان سے کہا گیا تھا کہ پاکستان ایسی سیا ست اور احتجا ج کا متحمل نہیں ہو سکتا آج بھی ایساہی ہے کہ پاکستان مزید کیا بلکہ ہر گز ایسی تحاریک کا متحمل نہیں ۔ اس سے اپو زیشن کو دور ہی رہنا چاہیے ۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قابل تحسین اقدام یہ کیا گیا ہے کہ اس نے اسمبلی میںحزب اقتدار کا کر دار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 4،5 سال کی عمرا ن خان کی تحریکو ں ہنگامہ خیز یو ں نے جہا ں سارا نظام گڑبڑ کر دیا تھا وہا ں لو گوں کو ذہنی طور پر تھکا بھی دیا ہے۔ اب عوام ایک پر سکون سیا سی ما حول کے متقاضی ہیں جس طرح پہلے مسلم لیگ ن پر ذمہ داری تھی اسی طرح اب تحریک انصاف پر آن پڑی ہے۔  دیکھنا ہے کہ وہ سیاسی نظام کو کس طرح پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ انہیں نئی ذمہ داریو ں کا احساس رکھتے ہوئے انتقامی سیا ست ، جذبات بکھر نے کے ماحول کو اجا گر کر نے کی بجا ئے سر ٹھنڈا رکھنے اور پاؤں گرم رکھنے کی ضرورت ہے اور اسی پر عمل کرنا ہو گا ۔بصورت دیگر ملک کیلئے کھلواڑ ہو جا ئے گا۔ وہ اپنے لیے ایک اچھے اور سا ز گار ماحول کے ساتھ کامیا ب ہو ئے ہیں ، جس میںان کیلئے بھی قو ت کی جانب سے کوئی روک موجود نہیں ۔خلا ئی مخلو ق اور ان کے ساتھ کے بارے میں پہلے سے تاثر قائم ہے چنا نچہ اب یہ ثابت کر نا ان کا کا م ہے کہ وہ خود کا ر اور خود مختار حکمر ان ہیں۔ ان کی راہ میں کسی جا نب سے اور خود ان کی جانب سے کوئی الجھاؤپید ا نہیں ہو گا ان کو عوام کی تائید بھی رہے گی اور اداروں کی آشیر باد سے بھی تہی دامن نہ ہو ںگے۔
یہاں یہ بات بھی یا د رکھنے کی ہے کہ عوام نے شخصیت پر ستی کے حوالے سے فیصلہ نہیںدیا ہے ویسے پاکستان کے بارے میںیہی رائے قائم کی جا تی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور کو انتخابات میں نہیں کھنگالا جا تا بلکہ شخصیت کا سحر چڑھتا ہے۔ یہ بات سچ ہے مگر اس مرتبہ اتنی بھی سچ نہیں ہے کیو نکہ عوام نے عمر ان خان کی شخصیت سے سحر زدہ ہو کر چنا ؤ نہیں کیا بلکہ ان کے منشور کا چنا ؤ کیا ہے چنانچہ ان پر تما م وعدوں کو پورا کرنے کا دباؤ بدستور رہے گا ۔ورنہ آئندہ نتائج 2018ء کے انتخابات جیسے ہی برآمد ہوسکتے ہیں ۔
کسی مشن یا کسی تحریک کی کامیابی فرد واحد کی مرہون منت نہیںہو ا کر تی بلکہ پوری ٹیم کی مساعی کا نتیجہ ہو ا کرتی ہے ہاں یہ درست ہے کہ اس مساعی حسن میں شخصیت کا سحر بھی شامل ہو تا ہے تاہم ٹیم کی صلاحیت کا دارومدا ر ہی کا میا بی کی ضما نت بنتا ہے۔ اس وقت یہ کہنے میںباک نہیںکہ تحریک انصاف کے پاس ان مخلص افراد کی کمی ہے جو عمران خان سے مفاد ات وابستہ کر کے تحریک کا حصہ بنے تھے بلکہ وہ جو مشن میں مخلص تھے اس وقت پس پر دہ چلے گئے ہیں اوران کی جگہ وہ گھس بیٹھے ہیں جن کو عمر ان خان نے خود نئی اصطلا ح الیکٹ ایبل سے نو از ا ہے۔ ان کا ماضی کا کردا ر قابل بھروسہ قرار نہیں پا تا اسلئے اقتدار کے ایو ان میں خان صاحب کوپھو نک پھونک کر قدم رکھنے کی سعی کرنا پڑے گی۔ علا وہ ازیں عمر ان خان کو اب ایک ذمہ دار حکمر ان کے نا تے یو ٹرن کی پا لیسی سے اجتناب برتنا پڑ ے گا، بلکہ ایک واضح مو قف اور دوٹوک رائے قائم کرنا ہوگی جیسا کہ وہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کہا کر تے تھے۔ شیخ رشید کے بارے میںوہ ٹی مناظر ے میں کیا رائے رکھتے تھے اب وہ ان کے مشیر خاص ہیں۔ اسی طر ح ایک مذہبی گروہ جس کے بارے میںآئین پاکستان میں واضح طورپر درج ہے کہ ان کا مسلمان کمیونٹی سے قطعی تعلق نہیں مگر وہ اس کو مسلمان برادری کا حصہ قرا ر دیتے آئے ہیں۔ اس بارے میں ان کواپنی پوزیشن کو واضح اور صاف کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کے عوام اپنے آئینی فیصلے کو دل وجا ن سے قبول کر تے ہیں ۔
حکومت سازی میں عمر ان خان کے سامنے مسائل کاپہاڑ کھڑا نظر آرہا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کی روشنی میں مسلم لیگ ن اس پو زیشن میں تھی کہ  اگر  مولا نا فضل الرّحما ن کی تجو یز قبول کرلیتی تو کے پی کے میں تحریک کی حکومت نہ بن پاتی بلکہ جمعیت اور مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہو تی اورآج جیسی سیا سی صورتحال بھی نہ ہو تی مگر نواز شر یف نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا اور تحریک انصاف کی حکومت قائم کرنے میں ساتھ دیا ، گو تحریک کی حکومت صوبے میں ایسی کا رکردگی نہ دکھا پائی کہ اس  کو مثالی قرار دیا جا ئے ۔ جنگلہ بس جس کی عمر ان خان خود مخالفت کیا کرتے تھے بعد میں اسی گنگا میںاشنا ن کرنے لگے اور نا مکمل  چھوڑ کر  رخصت ہوئے  ، بجلی گھروںکی تعمیر میںبھی کوئی چار چاند نہ لگا پائے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ کا میابی کا راز ٹیم ورک میں ہے مگر ٹیم کیا نکلی کہ گزشتہ 5 سال کی سب سے زیادہ کر پٹ پارٹی ہونے کا اعزاز پایا اور یہ اعزاز بھی کسی بیرونی قوت نے نہیںدیا بلکہ خود عمر ان خان نے عطا کیا۔ اقتدار کے شروع ایا م میں اپنے ایک وزیر کی گردن کرپشن کر نے کے الزام میںپکڑ لی جس کے بعد صوبائی حکومت کو مبینہ طور پر کرپشن کی بدنامی کو پوشیدہ رکھنے کے لیے احتساب بیورو کو معطل رکھنا پڑااور اس کے بعد کسی کرپشن کو گرفت میں لینے کی ہمت نہ ہوئی اور رخصت ہوتے ہو ئے اپنے ہی 22 ارکان صوبائی اسمبلی کو کرپٹ قرار دیدیا22 ارکا ن اسمبلی جمع ایک وزیر23 ارکا ن کا کر پٹ نکلنے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  اور اس طرح یہ اعزاز بھی ملتا ہے کہ کرپشن کی سب سے بڑی جماعت ہے ، مگر اس اقدام سے یہ سیا سی فائد ہ بھی اٹھایا کہ اس طرح عوام کو یقین ہو ا کہ ملک میں کرپشن ختم کر نے میںعمر ان خان کردار ادا کرسکتے ہیںجب وہ اپنو ںکی گردنیںناپنے کا عملی مظاہرہ کر سکتے ہیں تو دوسرے کرپٹ افراد کا صفایا تو یقینی کریں گے ۔ 
جہا ں تک حکومت سازی کا تعلق ہے تو پنجا ب میں وہی صورت حال ہے جو کے پی کے میںگزشتہ انتخابات کے بعد تھی چنا نچہ وہا ں جو ڑ توڑ کر نا پڑے گا البتہ وفاق میںکوئی خاص جدوجہد نہیںہو گی تاہم یہا ں بھی پو زیشن کے مقابلے میں مضبوطی کے لیے ان کو دوسری جما عتوں کا سہا را لینا پڑسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم فیورٹ نظر آرہی ہے مگر انتخابی نتائج نے ایم کیو ایم کی سیا سی حیثیت بدل دی ہے وہ اس طرح کہ سند ھ میں خاص طور پر کر اچی ، حید رآباد اور شہری علا قوں میںایم کیو ایم کی سیا سی حریف پی پی رہی ہے مگر اب انتخابی نتائج کہ پی ٹی آئی حیرت انگیز طورپر کراچی کی 20 نشستو ں میں سے 14 نشستیں لے اڑی ہے جس نے عام آدمی ہی نہیںخود ایم کیو ایم کے ہو ش اڑ ا دئیے ۔اب پی پی کی بجائے پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم کی اصل حریف بن گئی ہے چنانچہ ماضی میں انکاساتھ بنتا نظرنہیں آرہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے علیم خان نے کہہ بھی دیا ہے کہ پی ٹی آئی نے دائمی طور پر ایم کیوایم کو دفن کردیا ہے۔
 

شیئر: