Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کے رکن اعظم کا مقام ، میدان عرفات

یہاں زندگی کے آثار صرف یوم عرفہ کو  ہی نظر آتے ہیں جبکہ  حاجی وقوف عرفہ کے لئے  یہاں خیمہ زن ہوتے ہیں

میدان عرفات حرم مکی سے  باہر واقع ہے،یہ  حج مقامات میں  واحد جگہ ہے جو  حدود حرم سے  خارج ہے۔اس کے بیچوں بیچ جبل رحمت ہے۔ جبل رحمت میدانِ عرفات کے شمال مشرق میں سرخ رنگ کی ایک مخروطی پہاڑی ہے جس کی  اونچائی 200 فٹ سے کچھ کم ہے اور عرفات کے اصل پہاڑی سلسلے سے  ذرا الگ سی ہوگئی ہے۔ اس پہاڑی کو بھی عرفہ کہتے ہیں لیکن  اسکا  زیادہ معروف  نام جبلِ رحمہ ہے۔ یہ وہ پہاڑی ہے جس کے پہلو میں پیغمبر اعظم و آخر محمد مصطفی نے وقوف فرمایا تھا۔ ہر سال عازمینِ حج 9 ذی الحجہ کو یہاں آکر  وقوف کرتے ہیں اور جو  اس تاریخ کو  میدان عرفہ نہیں پہنچ پاتے  اس کا حج نہیں ہوتا۔  اللہ تعالیٰ وقوفِ عرفہ کرنے والوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے کہتا ہے  :
    ’’میرے بندو ں کو  دیکھو کہ یہ میرے  دربار میںگرد اور غبار آلود ہوکر پہنچے ہوئے ہیں،یہ میری رحمت کے  امیدوار ہیں،یہ  میرے عذاب سے خائف ہیں ،میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے  انکی مغفرت کردی ہے۔‘‘
    جبل رحمت کے مشرقی جانب پتھر کی  چوڑی سیڑھیاں چوٹی تک گئی ہیں۔  یہ  اتابک زنگی کے  وزیر جمال الدین الجاوید نے  بنائی تھیں۔ جبل رحمت کے اوپر ایک  مینار بنا ہوا ہے اور 60ویں سیڑھی پر ایک  چبوترہ  ہے اس پر ایک منبر رکھا ہے۔  ماضی میں یوم عرفہ کو  خطیب اسی منبر پر کھڑے ہوکر 9ویں ذی الحجہ کو  ظہر اور عصر کی  نمازایک ساتھ شروع کرنے سے قبل خطبہ  دیا کر تے تھے۔
    مکہ سے آنے والے عازمین  درہ مازمین سے نکل کر  ان ستونوں کے پاس سے گزرتے ہیں جو  حرم کی  حد بندی کرتے ہیں۔  ان ستونوں کے مشرق کی جانب ہی  وادیٔ عرنہ نامی  وہ نشیبی علاقہ واقع ہے جس کے کونے پر مسجد نمرہ کا ایک  حصہ بنا ہوا ہے۔ اس مسجد سے مشرق اور جبل رحمت سے مغرب کی جانب دور تک  وقوف کا میدان پڑا ہوا ہے۔  اسے  مقامِ موقف اور مختلف  ناموں سے یاد کیا جاتاہے۔
    ’’دائرۃ المعارف الاسلامیہ‘‘ میں صفحہ 265 اور266 میں تحریر ہے کہ مسجد نمرہ سے  مشرق او ر جبل  رحمت سے مغرب کی جانب دور تک   میدانِ عرفہ چلا گیا ہے۔ مشرق کی  طرف کوہستان  طائف کے سلسلے سے گھرا ہوا ہے۔  اسلام کی  ابتدائی  صدیوں میں اس میدان میں کئی کنویں کھودے گئے تھے  اور متعدد باغوں اور سکنی مکانوں کا  ذکر ملتا ہے۔
     ملکہ زبیدہ کے حکم سے طائف کے علاقے سے مکہ مکرمہ تک پانی لانے کے لئے جو  نہر بنائی گئی تھی  وہ بھی عرفہ پہاڑی کے  دامن میں بہتی تھی۔
    یہاں زندگی کے آثار صرف یوم عرفہ کو  ہی نظر آتے ہیں جبکہ  حاجی وقوف عرفہ کے لئے  یہاں خیمہ زن ہوتے ہیں۔
    عرفہ کے نام کی  ابتداء سے متعلق کچھ معلوم نہیں۔  روایت میں اس کی توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ  جب حضرت آدم اور  اماںحوا علیہم السلام جنت سے نکالے گئے  اور ایک  دوسرے سے جدا ہوگئے تو  وہ دوبارہ اس  مقام پر ملے  اور انہوں نے ایک  دوسرے کو (تعارفاً) پہچانا۔
    ایک اور  توجیہ  یہ بیا ن کی جاتی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو  یوم عرفہ کے مناسک سکھائے تھے۔
    بعض نے یہ توجیہ بھی کی ہے کہ اس مقام پر لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے اور اللہ کے حضور استغفار کرتے ہیں گویا یہاں  وہ عرفانِ ذات پاکر کمالِ بندگی کا  اظہار اور  رب العالمین کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔
    میدان عرفات میں قابل ذکر عمارتیں 2ہی ہیں۔ ایک تو مسجد نمرہ  ،دوم یہاں کا اسپتال۔مسجد نمرہ کا ایک  حصہ  میدان عرفات کی سرحد سے خارج ہے،وہاں اسکی علامتیں بنی ہوئی ہیں۔ آگہی کے لئے تختیوں پر تحریر کردیا گیا ہے کہ یہ حصہ  میدان عرفات سے  خارج ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جو  ظہر اور عصر سے قبل اس حصے میں بیٹھ کر  خطبہ سن رہے ہوتے ہیں،   ظہر اور عصر کی  نماز ایک  اذان اور2تکبیروں کے ساتھ ادا کرنے کے لئے  مسجد کے  اس حصے میں منتقل ہوجاتے ہیں جو  میدان عرفات کا حصہ ہے۔
    مغرب کی اذان تک   میدان عرفات جانے کے لئے یکطرفہ  راستے کھلے ہوتے ہیں  جبکہ مغرب تک کسی کو بھی  میدان عرفات سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔  یہاں بحکم شریعت عازمین کو  مغرب کی نماز ادا نہ کرنے کا حکم ہے۔

مزید پڑھیں:- - - --خشوع کے بغیر پڑھی جانے والی نماز ، بے وقعت

شیئر: