Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تقبیل و استلام ، گناہوں کا کفارہ

 رکن یمانی اور حجر اسود کے پاس اورخاص طورپر ان کا استلام کرنے کے بعد جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے

 

حجر اسود اور رکن یمانی ، بیت اﷲ شریف کے کونوں میں نصب جنت کے پتھر ہیں۔ ہر طواف کے شروع میں بلکہ ممکن ہوتو ہر چکر میں حجر اسود کی تقبیل ( بوسہ دینا ) یا استلام ( اسے صرف ہاتھ سے چھونا اور ہاتھ کو بوسہ دینا ) طواف کی سنتوں میں سے ہے۔ اسی طرح طواف کے ہر چکر میں رکن یمانی کے قریب سے حجر اسود کا تقبیل یا استلام ممکن نہ ہوتو طواف کرنے والے کو چاہئے کہ دور ہی سے حجر اسود کی طرف اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرے ۔ تقبیل و استلام سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور انھیں ( حجر اسود اور رکن یمانی کو ) چھونا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی نے ارشاد فرمایا :
    ’’بلا شبہ حجر اسود اور رکن یمانی کو چھونے سے غلطیاں مٹ جاتی ہیں۔‘‘
    حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کی فضیلت ہی کے پیش نظر حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ  طواف میں اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے البتہ یہ ضرور ذہن میں رہے کہ اس فضیلت اور فائدہ کو حاصل کرنے کیلئے کسی کو اذیت دینا درست نہیں ، چنانچہ ایک مرتبہ رسول اﷲنے حضرت عمر بن الخطابؓ سے فرمایا :
    اے عمرؓ ! تم طاقتور آدمی ہو ، حجر اسود پر نہ ٹوٹ پڑو کہ اس کے سبب کمزور کو تکلیف پہنچے ، اگر وہاں تنہائی ( اور کشادگی ) پاؤ تو اس کا استلام کرو ورنہ اس کی طرف رُخ کرکے تکبیر و تہلیل پر اکتفا کرو ۔
    حجر اسود اور رکن یمانی کے تقبیل و استلام کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے وہ مطلق ہے، چاہے دورانِ طواف ہو یا طواف کے بغیر  چنانچہ حدیث کے راوی حضرت عبداﷲ بن عمرؓکے بارے میں جس طرح یہ منقول ہے کہ وہ طواف میں تقبیل و استلام کا اہتمام ضرور کرتے تھے اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ وہ مسجد حرام سے اس وقت تک نہ نکلتے جب تک کہ حجر اسود کا استلام نہ فرماتے چاہے وہ طواف میں ہوتے یا طواف کے بغیر۔ اسی طرح حماد ، ابراہیم نخعی کا قول نقل کرتے ہیں کہ جب بھی تم مسجد حرام میں داخل ہو ، چاہے بیت اﷲ کا طواف کرو یا نہ کرو ، جب مسجد سے نکلنے کا ارادہ کرو تو حجر اسود کا استلام کرو یا ،اس کی طرف رُخ کرکے تکبیر کہو اور اﷲ سے دُعاء کرو ۔
    حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے بعد جو دُعاء کی جائے وہ قبول ہوتی ہے ۔یہ قبولیتِ دُعاء کا وقت اور موقع ہے ، نیز اس جگہ فرشتے بھی استلام کرنے والوں کیلئے مغفرت کی دُعاء کرتے اور ان کی دُعاؤں پر آمین کہتے رہتے ہیں ۔ رکن یمانی کے بارے میں حضرت عطاء بن ابی رباح ؒحضرت ابو ہریرہؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :
    ’’اس جگہ70فرشتے مقرر ہیں ، پس جو شخص بھی یوں کہے کہ اے اﷲ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عفو و عافیت کا طلب گار ہوں ، اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا تو وہ ( فرشتے اس دُعاء پر ) آمین کہتے ہیں ۔‘‘
    مشہور تابعی حضرت عکرمہ ، حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
     ’’ جو شخص رکن ( حجر اسود ) کا استلام کرے ، پھر دُعاء کرے تو اس کی دُعاء قبول کی جاتی ہے۔ ‘‘
     ابن عباسؓ سے پوچھا گیا اگر کوئی تیزی سے گزر جائے ؟ (یعنی وہاں دُعاء کیلئے ٹھہرے بغیر تیزی سے استلام کرکے دُعاء کرتے ہوئے گزر جائے ) فرمایا :
     ’’ اگرچہ کہ وہ چمکنے والی بجلی سے بھی زیادہ تیز کیوں نہ ہو ۔‘‘
     اسی طرح مشہور تابعی مجاہدؒ کہتے ہیں :
     ’’جو اپنا ہاتھ رکن ( حجر اسود ) پر رکھے پھر دُعاء کرے تو اس کی دُعاء قبول ہوتی ہے اور کوئی انسان بھی رکن یمانی پر اپنا ہاتھ رکھ کر دُعاء نہیں کرتا ، مگر یہ کہ اس کی دُعاء قبول ہوتی ہے۔ ‘‘
    امام حسن بصریؒ نے اہل مکہ کے نام جو رسالہ لکھا اس میں بھی یہ بات بیان ہوئی :
     ’’ جو شخص بھی حجر اسود کے پاس دُعاء کرے اس کی دُعاء ضرور قبول ہوتی ہے۔ ‘‘
     مشہور تابعی حضرت عطاء بن ابی رباحؒ سے ایک مرسل روایت اس طرح مروی ہے کہ رسول اﷲ سے دریافت کیا گیاکہ آپ رکن یمانی کا استلام بکثرت فرماتے ہیں ( ایسا کیوں ؟ )  تو آپ نے فرمایا :
    ’’میں جب بھی وہاں پہنچا تو جبرئیل کو کھڑا پایا جو استلام کرنے والے کیلئے دُعائے مغفرت کررہے تھے ۔‘‘
     چنانچہ حضرت عطا سے بھی یہ قول منقول ہے:
     ’’ جو شخص رکن یمانی پر اپنا ہاتھ رکھ کر دُعاء کرے تو اس کی دُعاء قبول ہوگی۔ ‘‘
    ان روایات و آثار سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رکن یمانی اور حجر اسود کے پاس اورخاص طورپر ان کا استلام کرنے کے بعد جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔

مزید  پڑھیں:- - - - -

شیئر: