Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معلمین اور سیاحوں کی یادداشتیں

احمد صالح حلبی ۔ مکہ 
جب بھی حج موسم شروع ہوتا ہے مکہ مکرمہ کی سڑکوں اور گلیوں کو ضیوف الرحمان کے خیر مقدمی کلمات سے سجا دیا جاتا ہے۔ یہ منظر ہرسال دیکھنے میں آتا ہے۔ جگہ جگہ نظر آنیوالے بورڈز پر معلمین کے اداروں کے نام اور ان کے دفاتر کے نمبر دیکھ کر گزشتہ دور کے ان معلمین کی یادیں تازہ ہوتی ہیں جو اداروں کے نظام کی تشکیل سے قبل انفرادی شکل میں ضیوف الرحمان کی خدمت کیا کرتے تھے۔ اداروں کے قیام نے انفرادی عمل کو اجتماعی عمل میں تبدیل کردیا۔ معلمین کا ماضی بتاتا ہے کہ ان کے آباءو اجداد نے معمولی وسائل کے باوجود حجاج کے ساتھ بڑے عمدہ تعلقات استوار کررکھے تھے۔ قدیم دور کے معلمین خوش اسلوبی سے پیش آتے ۔ ان کے دل پاکیزہ تھے اور ان کی زبان بڑی میٹھی تھی۔ یہ حضرات نیک نیتی اور خوش گوئی کے ذریعے حاجیوں کے دل جیتے رکھتے تھے ۔ انہیں شاندار دفتر یا خوبصورت دسترخوان میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ یہ حضرات انتھک جدو جہد کرکے حجاج کی خدمت میں مصروف رہتے ۔ حجاج کی خدمت میں تھکاوٹ نہ محسوس کرتے۔ 24گھنٹے ان کی دلداری میں لگے رہتے۔ بلا شبہ یہ وفادار معلم تھے۔ پروپیگنڈہ بھی نہ کرتے کہ ان کی خدمات خود اپنا پروپیگنڈہ ہوتی تھیں۔ معلمین کے آباﺅ اجداد ضیوف الرحمن کو اپنے کردار سے باور کراتے کہ معلم ہی مناسک حج کی رہنمائی کرنے والی شخصیت ہے۔ یہ لوگ ضیوف الرحمان کے مکہ مکرمہ پہنچنے سے لیکر رخصتی تک حجاج کو تمام ممکنہ خدمات فراہم کرنے کے جتن کیا کرتے۔ معلمین ان کی نظر میں تجارت نہیں بلکہ آباءو اجداد سے ملنے والا قابل فخر مشغلہ تھا۔ صدیوں سے وہ یہ مشغلہ کرتے چلے آرہے تھے۔ 
معلمین کے اسی کردار اور ان کے اسی رویے پر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ”الارتسامات اللطاف فی خاطر الحاج الی اقدس مطاف“میں معلمین کے ایمان افروز واقعات ، خدمات اور تصرفات کا ذکر جمیل کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1350ھ میں شائع ہوا تھا۔ شکیب ارسلان نے مذکورہ کتاب میں حج کے دوران پیش آنے والے واقعات ریکارڈ کئے۔ یہ ان کا حج سفر نامہ تھا۔ انہوں نے اس کا انتساب شاہ عبدالعزیز ؒ سے کیا تھا۔ 
شکیب ارسلان نے معلمین کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ”حجاز شریف میں 2گروپ ہیں عازمین حج کو ان کے ساتھ خوشگوار تعلق بنانا ضروری ہے، کوئی بھی شخص مکہ مکرمہ کے معلمین اور مدینہ منورہ میں زیارت کرانیوالوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔“
شکیب ارسلان نے یہ بھی تحریر کیا کہ جو لوگ معلمین کو بدنام کرتے ہیں میں ان کی بابت عرض کرنا چاہونگا کہ ”بہت سارے لوگ معلمین اور زیارت کرانے والوں پر لعن طعن کرتے ہیں بلکہ حد سے زیادہ ان کی برائیاں کرتے ہیں، یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ حاجیوں کو لوٹتے ہیں ، ان پر ظلم ڈھاتے ہیں اور ان سے اپنے حق سے کئی گنا زیادہ محنتانہ وصول کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ فریب اور دھوکہ دہی کا معاملہ کرتے ہیں۔ حجاج کے معاملے میں ہر ممنوعہ کام بلا ادنیٰ ہچکچاہٹ انجام دیتے ہیں۔ میں سفر حج سے قبل اس قسم کے قصہ سنا کرتا تھا۔ اس وقت تک مجھے مکہ اور معلمین کی بابت کچھ پتہ نہیں تھا۔ میں نے اس وقت تک نہ مدینہ دیکھا تھا اور نہ زیارت کرانے والوں کا تعارف حاصل کیا تھا۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت مشہور ہے جس کا مطلب ہے ”اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جن کے خلاف لوگ لن ترانیاں کرتے ہیں“۔
شکیب ارسلان نے آگے چل کر واضح کیا کہ ”معلم وہ ہے جو جدہ بندرگاہ اترنے کے بعد سے لیکر دوبارہ جہاز پر سوار ہونے تک حاجی کے تمام کام اور اس کی جملہ ضرورتوں کا ضامن ہوتا ہے۔ معلم ہی اسے مکہ اور وہاں سے میدان عرفات اور مزدلفہ اور منیٰ لے جاتا ہے ، وہی اسے منیٰ اور وہاں سے مکہ لاتا ہے ۔ اگر حاجی زیارت کا خواہاں ہوتا ہے تو اسے مدینہ منور ہ سفر کی سہولتیں مہیا کرتا ہے ، وہی اسے زیارت کرانے والے کے حوالے کرتا ہے جو اسے مدینہ منورہ میں اس کے تمام کام انجام دینے کا ضامن بن جاتا ہے۔ “
لیڈی ایولن کوبولڈ نے اپنے سفر حج پر ایک کتاب قلم بند کی تھی جس کا ترجمہ عمر ابو النصر نے کیا تھا۔ حج کے اس سفر نامے کا ترجمہ 1353ھ مطابق 1934ءکے دوران بیروت کے الاھلیہ کتب خانہ نے شائع کیا تھا۔ یہ پہلی انگریز خاتون ہیں جنہوں نے حج اور اس کے سفر کی واضح تصویر کشی کی۔ 
لیڈی ایولن کوبولڈ کا اسلامی نام زینب ہے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد مقدس شہر کے محلوں اور سڑکوں کے چکر لگائے۔ اہل مکہ کے رسم و رواج معلوم کئے، معلمین اور ان کی خدمات کی بابت اطلاعات حاصل کیں۔ انہوں نے معلمین کے کردار اور ان کی خدمات پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا کہ یہ لوگ مختلف زبانوں میں مختلف ممالک کے حجاج کےساتھ کامیابی سے باتیں کرتے ہیں ، حجاج کو مشکل میں پھنسنے پر نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں ، اگر کسی حاجی کا سرمایہ ختم ہوجاتا ہے تو معلمین ہی مدد کرکے اسے وطن واپس بھجوانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ وقت نے میرے ذہن سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے وہ مناظر محو نہیں کئے جو اخلاص کے حسن ، ایمان کی طاقت، خیر خواہی سے محبت کے آئینہ دار ہیں۔ میں نے مقدس سرزمین میں جتنے دن گزارے ان ساری باتوں اور خوبیوں کو بہت قریب سے محسوس کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: