Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں سے خطرات

عبداللہ الجمیلی ۔ المدینہ
سعودی عرب کے تمام علاقوں میں مشترکہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران مجموعی طور پر 1523124 غیر قانونی تارکین گرفتا ر کئے جاچکے ہیں۔ ان میں اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے 1154103 ،محنت قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے 250804، سرحدی سلامتی قانون کی خلاف ورزی کرنےوالے 118217 ہیں۔ یہ لوگ 26صفر 1439ھ سے لیکر جمعرات 20ذی قعدہ 1439ھ تک گرفتار کئے گئے۔ یہ اعدادوشمار الریاض اخبار نے شائع کئے ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی تارکین کو سفر ، رہائش اور روزگار کی فراہمی میں 2332افراد ملوث پائے گئے ہیں۔
گزشتہ 9ماہ کے دوران اقامہ و محنت قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کئے جانے والوں کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ اعدادوشمار بہت بڑے اور ہولناک ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ سیکیورٹی فورس کے اہلکار غیر قانونی تارکین کی گرفتاری کے سلسلے میں زبردست تگ و دو کررہے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی معلوم ہورہی ہے کہ بعض مقامی شہری غیر قانونی تارکین سے متعلق رپورٹنگ کے سلسلے میں کوتاہی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر اس قسم کی کوتاہی نہ ہو تو غیر قانونی تارکین کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں قیام نہیں کرسکتے۔ مقامی شہری کسی نہ کسی شکل میں ان پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے رہائش اور روزگار تارکین کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ترسیل زر میں بھی انہیں کوئی زحمت نہیں ہوتی جبکہ صحت، معیشت ہی نہیں بلکہ نکاح تک کے معاملات بروقت حل ہوجاتے ہیں۔
یقین کیجئے بیشتر تارکین وطن ممنوعہ سرگرمیوں کے راستے سریع رفتاری سے دولت حاصل کررہے ہیں۔ یہ لوگ زینے کے نیچے اور بند دروازوں کے پیچھے نہ جانے کیا کچھ کرکے کافی کچھ کما رہے ہیں۔ شراب سازی ، شراب فروشی، جرائم پیشہ عناصر کو پناہ دینے، جعلی دستاویزات تیار کرنے اور غیر قانونی خوراک فراہم کرنے سمیت بہت سارے کام کررہے ہیں۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کوئی شناخت نہ رکھنے والے غیر قانونی تارکین سعودی عرب کے قانون کے پابند معاشرے کے بالمقابل ایک معاشرہ قائم کرچکے ہیں۔ یہ معاشرہ وطن عزیز کے امن و معیشت کے خلاف خطرے کا الارم بجا رہا ہے۔ یہ معاشرے کی صحت و اخلاقیات پر برا اثر ڈال رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تارکین کے خلاف پکڑ دھکڑ کی مہم کا سلسلہ تیز کیا جائے اور سعودی عوام میں غیر قانونی تارکین کی موجودگی کے خطرات کی بابت آگہی مہم بھی بھرپور طریقے سے چلائی جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: