بنگلہ دیش کی جنریشن زی سیاسی میدان میں قدم جمانے کی کوشش میں
بنگلہ دیش کی جنریشن زی سیاسی میدان میں قدم جمانے کی کوشش میں
جمعرات 4 دسمبر 2025 20:55
بنگلہ دیش میں اس برس ہزاروں افراد نے اُس وقت طلبہ رہنماؤں کے منصوبے سننے کے لیے رخ کیا جب انہوں نے طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ کو ہٹانے کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت کا آغاز کیا۔ مگر اب یہ جماعت اپنی سٹریٹ پاور کو ووٹوں میں بدلنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عشروں کی اقربا پروری اور دو بڑی جماعتوں کی بالادستی سے نجات دلانے کے وعدے کے ساتھ سامنے آنے والی نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کو فروری میں ہونے والے انتخابات سے قبل مضبوط اور وسائل سے مالا مال حریفوں کا سامنا ہے۔
جماعت کے سربراہ ناہید اسلام، جو گذشتہ برس کی حکومت مخالف تحریک کے نمایاں رہنماؤں میں سے تھے اور مختصر عرصے کے لیے نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم نگران حکومت کا حصہ بھی رہے، نے کہا کہ ’ہماری تنظیم کمزور ہے کیونکہ اسے تشکیل دینے کے لیے ہمارے پاس وقت کم تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس سے آگاہ ہیں لیکن پھر بھی چیلنج قبول کیے ہوئے ہیں۔‘
سرویز میں جماعت تیسرے نمبر پر
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق تمام 300 نشستوں پر انتخاب لڑنے کی خواہشمند این سی پی چھ فیصد حمایت کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، جبکہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) 30 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہے۔
امریکی ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے دسمبر کے سروے میں بتایا گیا کہ سخت گیر جماعت اسلامی 26 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے گی۔
25 سالہ پراپتی تپوشی، جو حکومت مخالف تحریک کی صفِ اول کی رہنماؤں میں شامل تھیں، نے کہا کہ ’جب انہوں نے آغاز کیا تو مجھ سمیت سب کو ان سے امیدیں تھیں، مگر میں مایوس ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اہم معاملات، اقلیتوں کے حقوق یا خواتین کے حقوق، پر بروقت موقف اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ دکھاتی ہے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی میں ستمبر کے طلبہ انتخابات میں ایک بھی نشست نہ جیت پانا بھی جماعت کے لیے بددل ہونے کی ایک اور علامت تھا، حالانکہ یہی مقام حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کی تحریک کا مرکز تھا۔
شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ، جو اب بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہے، نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پابندی ختم نہ کی گئی تو بدامنی پھیل سکتی ہے، جس سے دنیا کی دوسری بڑی گارمنٹس انڈسٹری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سیاسی اتحاد کی کوششیں
کمزور ڈھانچے، محدود وسائل اور اہم سماجی معاملات پر غیرواضح پالیسیوں کے باعث این سی پی دیگر جماعتوں، بشمول بی این پی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔
ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’اگر ہم الگ کھڑے ہوئے تو امکان ہے کہ ایک بھی نشست نہ جیت سکیں۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتحاد کی صورت میں این سی پی اپنی ’انقلابی‘ شناخت کھو سکتی ہے۔
این سی پی کے سربراہ ناہید اسلام نے کہا کہ ’ہماری تنظیم کمزور ہے کیونکہ اسے تشکیل دینے کے لیے ہمارے پاس وقت کم تھا۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
تجزیہ کار الطاف پرویز کے مطابق ’اگر وہ اتحاد کرتے ہیں تو عوام انہیں عوامی لیگ، بی این پی اور جماعت اسلامی سے الگ نہیں سمجھیں گے۔‘
تجزیہ کاروں اور این سی پی کے ایک رہنما کے مطابق تحریک کے دوران عارضی طور پر متحد ہونے والے زیادہ تر طلبہ بعد ازاں اپنی اپنی جماعتوں میں لوٹ گئے، اور صرف ایک چھوٹا حصہ این سی پی میں شامل ہوا۔
مالی مشکلات
ناہید اسلام نے کہا کہ فنڈز ایک بڑی رکاوٹ ہیں، کیونکہ اراکین اپنی تنخواہوں، چھوٹے عطیات اور کراؤڈ فنڈنگ پر انحصار کرتے ہیں۔
28 سالہ حسنت عبداللہ جیسے چند کارکن گھر گھر جا کر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے حلقے میں لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میں بے سروسامان ہوں۔ لیڈر کا کام پیسے بانٹنا نہیں بلکہ حکومتی فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنانا ہے۔‘
این سی پی کے بعض رہنماؤں پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ اگرچہ جماعت نے بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ’زیرو ٹالرنس‘ پالیسی کا دعویٰ کیا ہے، تاہم اس سے جماعت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
’نئی راہ پیش کرنے کی کوشش‘
پیسہ، طاقت اور خاندانی اثر و رسوخ سے بھری سیاست میں کچھ نوجوان اب بھی این سی پی کو تبدیلی کی امید کے طور پر دیکھتے ہیں۔
شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
یونیورسٹی کی طالبہ منزلہ رحمان نے کہا کہ ’وہ نوجوان ہیں، انہوں نے انقلاب کی قیادت کی، اور مجھے امید ہے کہ وہ تبدیلی لا سکتے ہیں، بشرطیکہ خود آمر نہ بن جائیں۔‘
گذشتہ نومبر میں پارٹی نے ایک منفرد مہم کے تحت ملک بھر سے عام شہریوں کے ایک ہزار سے زائد امیدواروں کے انٹرویو کیے۔ ان میں ایک رکشہ چلانے والا بھی شامل تھا جو ٹرائل کے لیے کام سے چھٹی لے کر آیا تھا۔
32 سالہ محمد سجاد خان نے کہا کہ ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رکشے والا پارلیمنٹ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے موقع دیں، دیکھیں میں ملک کے لیے کیا کرتا ہوں۔‘
برطانیہ میں کامیاب کیریئر چھوڑ کر این سی پی میں شامل ہونے والی ڈاکٹر تسنیم جارا نے کہا کہ وہ عام لوگوں کے لیے سیاست کے دروازے کھولنے آئی ہیں۔
بی این پی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھی نوجوانوں کو ساتھ ملانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
بی این پی کے رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا کہ ’مستقبل میں سیاست نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو گی، اس لیے بہتر ہے کہ ہم انہیں پارلیمنٹ میں جگہ دیں۔‘
این سی پی نے کہا ہے کہ وہ انتخابات سے آگے دیکھ رہی ہے اور طویل المدتی ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دینا چاہتی ہے۔
این سی پی کے عبداللہ نے کہا کہ ’جیتیں یا ہاریں، محض انتخاب میں حصہ لے کر ہم کچھ نیا پیش کر رہے ہیں۔‘