Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت کے علمبردار یا جمہور یت کے دشمن

***صلاح الدین حیدر ۔کراچی***
مملکت خدا دادِ پاکستان میں عجیب قسم کی روایتیں پڑ گئی ہیں ۔میری اور پاکستان کی عمر برابر ہی ہے اور ایک صحافی کے ناتے  مجھے حالات ِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے، ا س لئے سینے میں کچھ ایسے راز دفن ہو تے ہیں جنہیں وقت سے پہلے زبان پر لانا موت کو دعوت دینے کے مترادف بن سکتاہے۔تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو پیشے کی حرمت کا تقاضا کچھ اور ہی ہے، سچ بولنا پڑتا ہے ورنہ ضمیر ملامت کرتا رہتاہے۔ صحافت نام ہے الفاظ کی حرمت کی پاسداری کا ،قوم کو ملکی مفادات اور خطرات سے آگاہ رکھنا ، لیکن کچھ مجبوریاں ایسی آپڑتی ہیں کہ خاموشی ہی بہتر ہے، زبان کھولی اور گئے لیکن یہ معزز پیشہ بھی نظر بد سے نہیں بچ سکا۔ لفافہ جرنلزم کا لفظ اب عا م لوگوں کی زبان پر ہوتاہے، پیسے کی خاطرلوگ ضمیر بیچ دیتے ہیں۔ذہن کیسے گوارہ کرتا ہے؟ یہ سوال میں الفاظ کی حرمت کو بیچنے والوں سے تو نہیں کر سکتا لیکن کڑھتا رہتاہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے ۔ 
بڑی غوروفکرکے بعد سوچا چلو اس ہفتے اپنے کالم میںکچھ نا کچھ کہہ ہی ڈالوں۔ صحافت اورسیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہوتاہے۔  دونوںایک دوسرے کی ضرورت ہیںلیکن ایک صحافی کو عوام الناس کی فلاح و خیر کی خاطر قلم اٹھانا پڑ جاتاہے، ورنہ ایک کسک رہتی ہے کہ آخر جو کچھ سیاست میں ہورہاہے، اسے کب تک پردہ سیمیں سے چھپایا جاسکے گا۔ جمہوریت کا اس ملک میں بڑی شدو مد سے نعرہ لگایا جاتاہے ، ایک سے بڑھ کر ایک شیطان جمہوریت کا لبادہ اوڑھے بے ایمانی پر تلا ہو ا نظر آتاہے۔عمران نے بدعنوانیوں یا کرپشن کیخلا ف نعرہ کیا بلند کیا ، سب اس کے پیچھے پڑ گئے۔ کیا نواز شریف، کیا شہباز شریف، کیا حمزہ، کیا مریم، یہ تو قد آوار شخصیات ہیں ۔ چھوٹے موٹے لوگ، دانیال ،طلال چوہدری ، مریم اورنگزیب اور کسی حد تک سابق گونر محمد زبیر تک عمران کے خلاف زہر اگلنے کو فرض اوّلین سمجھ کر روز ہی سپریم کورٹ کے باہر یا پھر وزیر اطلاعات کے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں۔ تماشہ کہے لیجئے یا دربار لگانا ۔ بہرحال کچھ نا کچھ تو ہوتا ہی تھا۔ 
انتخابات ہوئے، بڑے بڑوں کی نیّا ڈوب گئی۔ کئی لوگوں کی تو ضمانت تک ضبط ہو گئی۔ مولانا فضل الرحمان نے 32سال کی سیاست میں پہلی مرتبہ شکست کا مزہ چکھا۔ظاہر ہے سر پر بدلے کا بھوت سوار تھا، لمبی چوڑی تقریر کرڈالی لیکن جسے پہلے برا کہتے رہے اس کی طرف ووٹ لینے کیلئے سر حاضر ہوگئے۔سیاست کو خیر باد کہہ دیتے۔ ہم بھی کہتے کہ اصولوں کی خاطر قربانی دیدی۔ موضوع سے تھوڑا ہٹ کر ایک بات کہتا چلوں کہ سازشیں ہر ملک ہرمعاشرے میں جنم لیتی ہیں اور پرورش پاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ کسی خوبصورت بلا کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ عمران کو الیکشن سے پہلے یاالیکشن کے فوری بعد قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ یہ بات عمران نے شاید ایک ہندوستانی خاتون سمی گریوال سے ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی جس نے الیکشن کے فوراًبعد ایک ٹوئٹ کے ذریعے یہ بات دنیا تک پہنچا دی ۔ عمران نے خود بھی اس کی تصدیق کی لیکن گھبرائیے نہیں ،عمران نے شاہانہ زندگی کو چھوڑ کر کفایت شعاری کو اپنانے کی کوشش شروع کی تو مخالفین صف آراء ہوگئے۔ سینیٹ میں مشاہد اللہ اور ایک دو لوگوں نے واک آئوٹ شروع کردیا ۔ بھول گئے کہ ان کے اپنے وزیر اعظم نواز شریف شاید ایک دوبار سے زیادہ سینیٹ یا اسمبلی میں5 یا6 مرتبہ سے زیادہ نہیں گئے ہوں گے۔عمران نے شروع میں ہی سینیٹ میں آکر ہالینڈ میں سرکاردو عالم ، آقائے دو جہاںصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ حرکت پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اور اسلامک کانفرنس میں یہ سوال اٹھانے کا اعلان کیا ۔ وزیر خارجہ نے ہالینڈ کے ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات کی۔  جواب تو خیر کیا ملنا تھاسوائے اسکے جناب ہمارے ملک میں قوانین ہی ایسے ہیں کہ ہم کسی کو کچھ کہنے سے روک نہیں سکتے لیکن عمران نے تو اپنافرض ادا کردیا۔مزید بھی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ مسلم امہ کو پیش آنے والے مسائل کی طرف متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ چلیں ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں ، لیکن سینیٹ میں یہ سوال کیوں کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم نے سرکاری ہیلی کاپٹر پر کتنا خرچہ کیا۔ نواز شریف کے بیٹے حسن اور حسین اور خود مریم کتنی مرتبہ ذاتی مقاصد کیلئے یہ ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ بھی ایوان بالا کو بتایا کہ وزیر اعظم ہائوس میں مریم نواز کی زیر نگرانی ایک میڈیاسیل عرصہ دراز تک کام کرتا رہا جس کے پاس سرکاری خزانے کی خطیر رقم اور بھی بہت کچھ اخراجات ہوتے تھے۔15ارب روپے کے اخراجات میڈیا کو مریم کے کہنے پر دیئے گئے ۔پرنٹ میڈیا کو 10ارب اور الیکٹرانک میڈیا کو 5ارب کے فوائد پہنچائے گئے، اس پر ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے تحقیقات کروانے کو کہا۔ تنقید برائے تنقید کوتنقید برائے اصلاح پر ترجیح دی گئی،یہ کونسا انصاف ہے ، کونسی جمہوریت کی خدمت ہے۔ 
سازشی عناصر عمران کی حکومت کو تہہ وبالا کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ایسا کرنے والے جمہوریت نواز یا جمہوریت کے دشمن کہلائیں گے ۔عوام خود ہی فیصلہ کرلیں۔ 
 
 

شیئر: