اقوام متحدہ کی مغالطہ آمیزیاں کب تک؟
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”عکاظ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
اقوام متحدہ کے ماہرین اپنی رپورٹیں حوثیوں سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر تیار کرکے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اپنے طور پر حقیقت دریافت کرنے کی کوئی زحمت نہیں کرتے۔ مغالطہ آمیز معلومات کی حقیقت دریافت کرنے کیلئے انویسٹی گیشن کو یکسر نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ اسکی تاکید 44صفحات پر مشتمل اس تازہ ترین رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جو یمن کی آئینی حکومت اور اس کے حمایتی عرب اتحاد کے خلاف من گھڑت دعوﺅں اور خود ساختہ حقائق پر مشتمل ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ اب تک یمن میں بغاوت سے قبل سے کام کرنے والی غیر جانبدار یمنی تنظیموں کو ان کا حق نہیں دے سکی ہے۔ صنعاءمیں حوثیو ں کے زیرقبضہ وزارت منصوبہ بندی نے مذکورہ تنظیموں پرپابندی عائد کی تھی۔ اب تک یہ پابندی برقرار ہے۔ انہیں انسانی حقوق کے باب میں کسی بھی طرح کی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔ تب سے اب تک انسانی حقوق کے ماہر حوثی ہی نئی تنظیمیں چلا رہے ہیں۔ حوثی باغی انہی کو اس قسم کی سرگرمیوں کے اجازت نامے جاری کئے ہوئے ہیں۔ یہی وہ اساس ہے جس کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں جھول پایا جاتا ہے۔ ایک اور وجہ ہے اور وہ یہ کہ صنعاءمیں موجود اقوام متحدہ کے دفتر کے عہدیداروں کے ہاتھ پیر حوثیوں سے ملنے والی دھمکیوں کے باعث بھی کٹے ہوئے ہیں۔ حوثی انہیں اغوا کرتے ہیں اور چند ہفتے بعد رہا کردیتے ہیں۔
صنعاءمیں اقوام متحدہ کے دفتر کے خلاف اس طرح کی سرگرمیاں ہورہی ہیں اور وہ وہاں سے اپنا دفتر تبدیل کرنے کی روا دار نہیں حالانکہ یمنی حکومت مسلسل پیشکش کررہی ہے کہ اسے اپنا دفتر صنعاءسے عدن منتقل کرلینا چاہئے۔ اقوام متحدہ کا دفتر مغالطہ آمیز رپورٹیں جاری کرنے میں مصروف ہے۔ اتنا ہی نہیں اقوام متحدہ کے بعض عہدیدا رحوثیوں کی سرکاری تقریبات میں بھی بلا ادنی قباحت شرکت کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ کب تک اس قسم کی زرد رپورٹوں کی یرغمال بنی رہیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭