ہر دلہن کو اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر نئے ماحول میں ڈھل جانا چاہئے، ہوا کے دوش پر گفتگو
ذہنی ہم آہنگی کامیاب زندگی کی خوبصورتی ہے،فریحہ کو روایات سے محبت ہے ، محمد صارم علوی
تسنیم امجد ۔ ریاض
آفرین ہے انٹرنیٹ پر جس نے گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں پر مشتمل فضائی فاصلوں کو سمیٹ کر ایک’’ٹک‘‘ یعنی کلک تک محدود کر دیا اور صدآفرین ہے اردونیوزپر جوشرق و غرب کی انتہاؤں میں بسنے والے ریختہ کے دلدادگان کو ’’ہوا کے دوش پر‘‘ہم نفس و ہم زبان ہستیوں سے ملاقات کا موقع فراہم کرنے کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔یہ کبھی کینیڈا اور امریکہ تو کبھی برطانیہ اور جرمنی میں بسرام کرنے والے اردو دانوں سے ہم کلام ہوتا ہے ۔
جب کبھی دیس اور پردیس کے بارے میںکچھ تحریر کرنے لگیں توزبانِ قلم وطن کی تشریح خود بخودسپردِ قرطاس کرنے چل نکلتی ہے اور ذہن کے ہر دریچے سے ا یک سوال جھانکتا دکھائی دیتا ہے کہ کیا وطن اس سرزمین کو کہا جاتا ہے جہاں انسان آنکھ کھولتا ہے یاوہ خطہ جہاں وہ پہلا لفظ بولتا ہے؟وطن اسے کہتے ہیں جہاں انسان پروان چڑھتا ہے یا وہ خطۂ ارضی وطن کہلاتا ہے جہاں وہ خوب سے خوب ترکی جستجومیں آگے بڑھتا ہے؟ آج کا دن ذرا ہٹ کر تھا کیونکہ ہمارے ذہن میں ایک ایسا دریچہ بھی وا ہوا جس نے وطن کے بارے میں سوال نہیں کیا بلکہ’’ پردیس ‘‘کی تعریف بیان کر دی اور پھر باور کرایا کہ جو خطۂ زمین اس ’’پردیس‘‘ کی تعریف پر پورا نہ اُترتا ہو، وہی وطن ہے۔ پھر اس دریچے سے صدا آئی کہ :
’’ذرا محسوس کیجئے! سنسان بہاروں کا نام پردیس ہے، پررونق تنہائیوں کا نام پردیس ہے، چلاتی خاموشیوں کا نام پردیس ہے ، پُرخوف سکون کا نام پردیس ہے ، بے آواز پکار کا نام پردیس ہے، بیدار نیند کا نام پردیس ہے ، تشنہ سیرابی کا نام پردیس ہے ، ظالم معصومیت کا نام پردیس ہے ، ناآشنا اپنائیت کا نام پردیس ہے ، اک فراموش یاد کا نام پردیس ہے،قہقہہ بار فریاد کا نام پردیس ہے اور وجودِ ہستی پر ’’ڈھائی جانے والی عنایات‘‘ کا نام پردیس ہے۔‘‘ ہمارے اوطان میں عموماً مرد ہی پردیس کا رُخ کر تے ہیں اور پردیسی کہلاتے ہیں مگر جو وطن میں ہی رہتے ہیں، وہ پردیس کی ’’سرد حدت‘‘ سے آشنا نہیں ہوپاتے ۔ دوسری جانب صنف نازک ہے جو وطن میں رہنے کے باوجود پردیس کی ’’جذباتی اذیت‘‘کا شکار ضرور ہوتی ہے ۔ ہر عورت کے لئے اس کا میکا اپنے دیس کی مانند ہوتا ہے اور دیس بھی ایسا کہ وہ ہزارچاہے ، اسے اس پردیس کی’’ مستقل شہریت‘‘کبھی نہیں ملتی بلکہ جتنا جلد ممکن ہو ، اسے سسرال نامی’’ پردیس‘‘روانہ کر دیاجاتا ہے جسے وہ اپنا دیس بنانے کی کوشش میں ان گنت قربانیاں دیتی ہے۔
شاید اسی لئے وہ ’’پردیسن ‘‘ ہی ’’پردیسی ‘‘ کے دکھ جانتی ہے اور اس کی شکایات کو دل و جان سے مانتی ہے۔ اس مرتبہ ’’ہوا کے دوش پر‘‘ ہماری مہمان امریکہ سے ہم کلام تھیں۔ فریحہ صارم علوی ، ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کی نمائندہ گرہستن بھی ہیں۔ وہ امریکہ میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات کے ذریعے وطنِ عزیز پاکستان کا نام بھی روشن کررہی ہیں۔انہوں نے اردو نیوز سے فرمائش کی کہ ان سے گفتگو کا احوال اردونیوز میں اس وقت شائع کیاجائے جب وہ مملکت میں موجود ہوںتاکہ وہ تازہ اخبار ہاتھوں میں تھام کرہوا کے دوش پر ملاقات کی روداد پڑھ سکیں ۔ انکا کہنا تھا کہ میں واپس جاتے ہوئے بہت سے اخبار ساتھ لے جاؤں گی تاکہ امریکہ میں اپنی سہیلیوں کواردونیوز پیش کر سکوں۔ فریحہ صارم کا تعلق کراچی ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ میں نے پی اے ایف اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد بحریہ کالج سے گریجویشن کی۔ مجھے بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ میری ماماسعیدہ اظہر شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں ، کالج کی پرنسپل ہیں اورنظم وضبط کے حوالے سے وہ جانی جاتی ہیں۔میرے والد اظہر حسین، پاک بحریہ میں ایگزیکٹیو پوسٹ پر ہیں۔ والدین کی توجہ اور کوشش سے ہی ہم نے زندگی گزارنے کا قرینہ سیکھا۔ہم 4بہن بھائی ہیں ۔ میں3 بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔بڑے بھائی محمد اظہر ،ان سے چھوٹے محمد انیس پھر میں اور سب سے چھوٹابھائی محمد سعد ہے ۔ ہماری تعلیم پر والدین نے بہت توجہ دی۔
الحمدللہ، بڑے بھائی نے ’’نسٹ ‘‘ سے الیکٹریکل انجینیئرنگ کی پھر ٹیلی کمیونیکیشن میں جرمنی سے ماسٹرزکیا۔ منجھلے نے’’نسٹ‘‘ سے ہی مکینیکل انجینیئرنگ کی ۔ وہ آج کل متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ تیسرے بھائی نے امریکہ سے انٹرنل میڈیسن میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی اور وہیںسیٹل ہو گئے جبکہ بڑے بھائی جرمنی میں ہیں۔ فریحہ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ڈاؤ میڈیکل سے تعلیم مکمل کی جو میرا خواب تھی۔
تعلیمی کریئر بھی شاندار رہا ۔ میں مزید پڑھنا چاہتی تھی لیکن ماما، بابا کو مجھے رخصت کرنے کی فکر لاحق ہوگئی چنانچہ میڈیکل اور ہاؤس جاب کے دوران ہی میری دوست سمیعہ علوی نے مجھے اپنی بھابی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس طرح والدین کی باہمی رضامندی سے میں محمد صارم علوی کی دلہن بنادی گئی۔ میں خود کو بہت ہی خوش قسمت تصور کرتی ہوں جسے سسرال میں بھی بہت ہی ٹیلنٹڈ رشتے ملے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس گھرانے میں علم و ادب صراحی سے اُمنڈ رہا ہے۔ دونوں نندیںسمیعہ اور منال ڈاکٹر ہیں ۔ میرے شوہر صارم علوی نے بھی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی ہے ۔ نندوں نے مجھے اکلوتے پن کے احساس سے باہر نکالا اور بہنوں سے بڑھ کر چاہا۔ ساس اور سسر اردو ادب کی ترقی کیلئے سرگرداں ہیں۔ ساس تبسم محسن علوی اور سسر محسن علوی ہمہ صفت ہستیاں ہیں۔
دونوں اپنے ادبی ذوق کی تسکین کیلئے شعری اور ادبی محفلوں میں خصوصیت کے ساتھ شرکت کرتے ہیں جبکہ ساس صاحبہ اپنی ادبی تنظیم ’’ماورا‘‘ کو خوب سے خوب تر کرنے میں مصروف رہتی ہیں مجھے فخر ہے کہ میرے ساس سسرکئی کتب کے مصنف بھی ہیں اور شاعربھی۔ شادی کے بعد امریکہ جاکر میں نے USMLE کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا اور وہیں پر ریزیڈنسی شروع کردی۔ ہم دونوں ہی بہت مصروف رہتے ہیں۔امریکہ میں رہنا بہت اچھا لگتا ہے لیکن وطن سے قلبی تعلق ہے اسی لئے ہم ہر لمحہ آنے والی چھٹیوں کے منتظر رہتے ہیں۔ مملکت بھی ہمارا دوسرا گھر ہے، ابھی15یوم کے لئے یہاں آئے ہیں ۔ عمرہ اور زیارت میں جو مزہ اور سکون ہے وہ بھلا کہیں اور کہاں۔ اپنے سسر ابو کے نعتیہ مجموعے ’’وارفتگی‘‘، ’’ یہی قصر دل کی اذان ہے‘‘ اور’’ نور کا ہالہ‘‘ ہم دونوں امریکہ ہمراہ لے گئے ہیں اور ساس امی کی تصانیف ’’تحریم‘‘ اور ’’دکھ روپڑے‘‘ ، امریکہ میں بھی سب نے لانے کو کہا ہے۔ صارم علوی نے کہا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہی کامیاب زندگی کی خوبصورتی ہے۔فریحہ ایک اچھی شریک حیات ثابت ہوئی ہیں ۔ میں بھی ادبی ذوق رکھتا ہوں کیونکہ والدین کی گود میں یہی کچھ سیکھا تاہم امریکہ پہنچ کر ماحول بدلا تو رخِ ذوق انگریزی ادب کی جانب مڑگیا ۔
اب وہاں نظمیں لکھ کر داد وصول کرتا ہوں۔ فریحہ کو روایات سے محبت ہے۔ انہوں نے امریکہ میں بھی ان روایات کا بھرم قائم رکھا ہے۔ مجھے اور فریحہ کو احمد فراز ، پروین شاکر اور وصی شاہ کی شاعری پسند ہے۔ کچھ پسندیدہ اشعار قارئین کی نذر:
خواب ، دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھرجائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مرجائیں گے
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کربھی جھکتے نہیں
ڈاکٹر فریحہ نے کہا کہ میں نے اپنے والدین اور پھر ساس سسر کی زندگیوں سے جو سیکھا ، اسی کو میڈیا کی وساطت سے تمام لڑکیوں کے لئے یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ کبھی سسرال اور میکے کو ’’دو‘‘ نہ جانیں۔ اپنے اخلاق اور محبت سے دل جیتنے کی ہرممکن کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ ہم سب انسان اسی کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ جہاں بھی تلخیاں ہوں وہاں یقینا کہیں نہ کہیں جھول ضرور ہوتا ہے ورنہ کوئی انسان سراپا اغلاط نہیں ہوتا۔ محاسبے کی ضرورت ہر لمحہ رہتی ہے۔ دوسروں کی اچھائیوں اور غلطیوںسے سیکھنا ضروری ہے۔ ہر دلہن کو اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر فوراً نئے ماحول میں ڈھل جانا چاہئے۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ساتھ چلنے والے بعض اوقات اس لئے ساتھ نہیں ہوتے کہ ہم ٹھوکر کھائیں گے تو وہ ہمیں سنبھال لیں گے بلکہ وہ تو یہ دیکھنے کیلئے ساتھ رہتے ہیں کہ ہم کب ، کہاں اور کیسے گرتے ہیں؟ ٹھوکر ہمارے گھٹنوں کو زخمی کرتی ہے یا ہاتھوں کو، خاک چہرے کو داغدار کرتی ہے یا کپڑوں کو، اس لئے اپنی زندگی اپنے حالات کے مطابق جئیں، سنی سنائی باتوں یا لگائی بجھائی سے دامن بچا کر چلنے میں ہی کامیابی ہے ۔ عورت کو یہ ادراک کرلینا چاہئے کہ اس کا میکے میں عارضی اور سسرال میں دائمی پڑاؤہوتا ہے ۔بیاہی بیٹیوں اور بہنو ں کو ان کے شوہر کے گھروں میں دیکھ کر ہی سکون ملتا ہے ، انہیں محبت بھی وہیں ملتی ہے۔ ازل سے یہی دستورِ زمانہ ہے ۔‘‘ فریحہ نے کہا کہ پروین شاکر میری پسندیدہ شاعرہ ہیں۔ان کے چند اشعار نذر ہیں:
پت جھڑ سے ہے گلہ نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے
سرشاریٔ شگفتگیٔ گل کو کیا خبر
منسوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
اس گھر میں تیرگی کے سوا کیا رہے جہاں
دل شمع پر ہے اور ارادت ہوا سے ہے
ڈاکٹر فریحہ نے کہا کہ یقین نہیں آرہا ، مجھے اس اخبار کے صفحے کی زینت بننے کا اعزاز ہوگا۔ کیوں نہ اس کی وساطت سے اپنی پیاری سہیلی سمیعہ علوی ان کے شوہر شارق عبداللہ کو بھی ان کی محبتوں اور خلوص کا شکریہ کہہ دوں۔ میںمنال علوی کی بھی بے انتہا مشکور ہوں جنہوں نے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ قیمتی اشیاء بھی مجھ پر نچھاور کیں ۔ ’’یہ لے لو بھابھی اور یہ کھالو بھابھی‘‘یہ مٹھاس بھرے جملے میں کبھی بھول نہیں سکتی۔ یقین جانئے میں اُن خوش قسمت ہستیوں میں سے ہوں جو اپنے سسرال کے بارے میں دل کی گہرائیوں سے یہ اعتراف کرنے پر مصر ہیں کہ:
’’سب نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘