Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قوم کو توقعات

***خلیل احمد نینی تال والا***
تقریباً ہر سال کئی مرتبہ امریکہ اور کینیڈا گرمیاں گزارنے اور دوستوں سے ملنے جاتا رہاہوں مگر اس بار کچھ مختلف ہی دوستوں کو پایا۔ان گروپ میں اکثربحث ہوتی تھی کہ پاکستان کا کیا ہوگا ،کرپشن کیسے ختم ہوگی ۔ہمارے سیاست دان کیسے سدھریں گے ۔گویا ہماری بے خبر قوم کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب پاکستان کا صرف اللہ ہی حافظ ہے ۔کبھی نہیں سدھرے گا لہذا اچھی امیدیں ہی دم توڑ چکی تھیں اور صبر آگیا تھا کہ اچانک امید کی ایک کرن اس وقت پھوٹی جب الیکشن 2018ء میں پی ٹی آئی کی مقبولیت اور تبدیلی کی خواہش رکھنے والی قوم نے عمران خان کی شکل میں ایک تجربہ پھر کر ڈالا اور اُن کو کامیاب کرواکر نئی راہیں، نئے خواب دیکھنے شروع کردیئے اور قوم پھر بے صبری کا شکار ہوگئی اور کیوں نہ ہوتی اتنے بڑے بڑے بت جو ایک ساتھ گرے تھے وہ سب کے سب ایک جگہ جمع ہوکر اب اپنی کارروائیاں کرنا چاہتے تھے  قوم کو کہہ رہے تھے کہ الیکشن میں دھاندلیاں ہوئیں۔ گویا پہلی مرتبہ وہ خود اُس کا شکا رجو ہوئے تھے۔ اسلئے ہضم نہیں ہورہا تھا۔ 
خیر مجھے امریکہ اور کینیڈامیں برسوں سے رہنے والے پاکستانیوں میں ایک نئی لہر اورخوشی کی دیکھنے کو ملی ۔مگر وہ دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور عمران خان خود جذباتی اور ناتجربہ کار ہے ۔یہ تمام شکست خوردہ  لوگ مل کر اُس کو کام نہیں کرنے دینگے۔روز اول سے تنقیدوں کے تیرعوام کو بہکانے کیلئے چلائیں گے اور اس میں وہ تمام کرپٹ سیاستدان ،بیوروکریٹس اور مفاد پرست عناصر جن کے چراغ گل ہونے کو ہیں۔ عوام کو مایوسی کے غار میں دھکیلیں گے اور اب یہی ہوتا نظر آرہا ہے ۔کسی کی نظر بنی گالہ سے وزیراعظم ہائوس کے آنے جانے پر ہے کہ وہ چند منٹ میں آناًفاناً ہیلی کاپٹر پر کیوں جارہے ہیں۔ پھر میاں عاطف کے ا ستعفیٰ کی طرف توجہ دلاتے ہے اور جب 2 اور اُن کے دوستوں نے بھی معذرت کی تو گویابھونچال آگیا۔ یعنی ابھی ابھی اُن معاشیات کے ماہرین کی کارکردگی سامنے بھی نہیں آئی تھی، ایک طوفان قادیانی کے ہمدرد قائداعظم کے وزیرخارجہ ظفر اللہ خان سے مماثلت دینے لگے ہیں ۔میں ایک لطیفہ کے طورپر معاشیات اور اس قسم کے ایکسپرٹوں کا تجزیہ کرتاہوں ۔جیسے ایک فٹ پاتھ پر ہاتھ دیکھ کر تقدیر اور آنے والے حالات بتانے والے نجومی کو خود نہیں معلوم ہوتا کہ اُس کامستقبل کیا ہے کیونکہ اگر اچھا ہوتا تو وہ پھر سڑک پر کیوں بیٹھتا ،بالکل اسی طرح یہ معاشیات کے گرگوں سے کوئی پوچھے کہ جب تم اتنے قابل ہو تو پھر تمہاری اپنی فیکٹریاں کیوں نہیں ہیں ۔تم دربدر ہوکر نوکریاں کیوں کررہے ہو؟
میرا عمران خان صاحب کو مشورہ ہے کہ آپ اِدھر اُدھر کے لوگوں میں جانے کے بجائے خود اپنے ملک کے کامیاب ترین صنعت کاروں کی فہرست بنائیں جن کا ماضی ہمارے سیاستدانوں کی کرپشن سے پاک ہو۔جیسے کراچی ،لاہور ،فیصل آباد اور اسلام آباد چیمبر ز آف کامرس کے صدرور ،عہدیداران ،پاکستان فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے کامیاب عہدیداران جوہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ یہ لوگ ایمانداری سے ٹیکس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کی درآمدات اور برآمدات پر انحصار ہے انہیں آگے لائیں اور  ہر صنعت کے اچھے لوگوں کا گروپ بنائیں جو بڑی بڑی صنعتیں منافع بخش بناکر عوام کو روزگار فراہم کررہے ہیں ،ان سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ گمنام سپاہیوں کی طرح پاکستان سے محبت بھی کرتے ہیں اور ملک کی معیشت میں چارچاند لگاسکتے ہیں ۔اُن کو چُن چُن کر آگے لائیں۔  پاکستانی صنعتکار ،بینکرز ،بلڈرز ،انشورنس،قانون دان ،ڈاکٹرز،انجینئرز جو اب بھی ملک کے بدترحالات میں یہاں رہ کر کاروبار کررہے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے ۔آپ اُن کی صلاحیتیوں کو بروئے کار لائیں ۔جو لوگ اپنے شعبوں میں نیک نامی میں شہرت رکھتے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھائیں ۔بے شک آپ کی ٹیم نئی بھی ہے اور اکثر ناتجربہ کار بھی ہے اور آپ کے نعرے کہ تبدیلی آگئی ہے اُس کامقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ تبدیلی یقینا اتنی جلدی نہیں آسکتی ۔
بے قراری بڑ ھ چکی ہے۔ آئے دن ایک نئے شوشہ سے قوم میں پھر مایوسی پھیلنا شروع ہوچکی ہے۔مثلاً کبھی 5ہزار کے نوٹ کو بند کرنے کی افواہ پھیلائی جاتی  ہے تو کبھی بجلی ،گیس ،پیٹرول کے مہنگے ہونے کا الارم بجاکر قوم کو خوف زدہ کیا جاتا ہے ۔پھر منی بجٹ کی نوید سنائی جاتی ہے۔ ٹیکس لگانے کے سلسلے میں پڑھے لکھے ٹیکس دینے والوں کو ڈرایا جاتا ہے  جو ٹیکس کی چھوٹ تنخواہ دار طبقے کو مسلم لیگ ن کے آخری بجٹ میں دی گئی تھی وہ واپس لینے ، ایف بی آر کے نوٹس جاری ہونے کی خبریں پھیلا کر اُن کو ورغلایا جارہاہے ۔الغرض ہر طرف سے مایوسی کے بادلوں کو گھیر گھیر کر لاکر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ایک تو آپ کا وزیراطلاعات خود غیر سنجیدہ جوابات دیکر میڈیا میں مذاق بن چکا ہے ۔کسی ایسے جہاں دیدہ فرد کو یہ شعبہ دیں ورنہ پی ٹی آئی کامذاق گھر گھر اُڑنے سے آپکی سبکی ہوگی ۔کس کس کا منہ بند کرینگے ،برسوں کے پاپی راتوں رات نہیں سدھر سکتے اور ایک چیز جو قوم کوکھٹک رہی ہے وہ لوٹی ہوئی دولت ہے جس کا کیوںذکر نہیں ہورہا جس کی بنیاد پر قوم نے آپ کو ووٹ دیے تھے۔قوم پوچھتی ہے کہ کیا ہوا اُس وعدے کا ایک ماہ ہونے کو ہے ۔ماضی کے کھلے کیس صرف مسلم لیگ ن والوں کیلئے ہیں، باقی دیگر جماعتوں کے کرپٹ لوگ کب پکڑیں جائیں گے؟اُن کیلئے کوئی سمری ،ٹرائل کیوں ممکن نہیں ۔قوم کو امیدیں تھیں کہ جس طرح آپ جوش خطابت میں کہتے تھے کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا ۔آج وہ آپ کے دائیں بائیں موجود ہیں ۔آپ نے خود ان کو پناہ دے رکھی ہے، تو احتساب کب اور کس کا ہوگا ۔وہ جو آپ کے اب وزراء بن چکے ہیں،اور آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں یاوہ جو آپ کے مخالفین ہیں۔ اچھے اور بُرے کی تمیز وزارت عظمٰی حاصل کرنے کی جدوجہد میں افادیت کھو چکی ہے ۔اب وہ بینک فراڈ کرنے والے اور کرپشن زدہ، نیب اور ایف آئی اے کو درکار سیاست دان معہ سیاہ دھبوں اگر مک مکاکر بیٹھے ہیں تو پھر تبدیلی کا خواب خود آپ کے ہاتھوں چکنا چور ہورہا ہے ۔صرف اخباری دھماچوکڑی سے قوم مطمئن نہیں ہوگی ،آپ کو حقیقی تبدیلی لانی پڑے گی ،کم از کم اُس کیلئے آثار تو پیدا کریں ۔بقول شاعر!
یہ عشق نہیں آسان اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جاناہے
 

شیئر: