Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا: کیسا طوفان تھا جو آنے سے پہلے ٹل گیا تھا

کبھی تشویش کہتی تھی اندھیرا اب نہ جائے گا کبھی اُمید کہتی تھی اُجالا ہونے والا ہے، ایمرجنسی وارڈ میں زخمی خاتون کی اپنی ساس سے گفتگو نے غزالہ کو حیرت میں ڈال دیا،جس چیز کی خواہش ہو اسے لوگوں میں تقسیم کردو، تمہارے پاس اسی چیز کی فراوانی ہوجائیگی
 مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
(قسط 17)
  ”جو بارش میں سات رنگوں کی دھنک دکھا سکتا ہے اس کے لئے دُکھ کو سُکھ میں بدلنا کیا مشکل ہے“۔وہی تو ہے جو بنجرزمین کو سرسبزو شاداب کر سکتا ہے جو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر عدم کا مُسافر بنا دیتاہے، جو خاک میں ریزہ ریزہ ہوئی ہڈیوں کو دوبارہ زندگی بخشے گا ، اس کے لئے کسی کو زندگی بخشنا کیا دشوار ہو سکتا ہے، ساری کائنات اس کے ایک کُن کی منتظر ہے اور اس کا کُن کائنات کے ذ رے ذرے کے لئے فیکون کا سامان!! وہ بند لبوں کی سرگوشیاں سُن لیتا ہے اور آنسوﺅں کی زبان کو سمجھ جاتا ہے کیا ہے جو اس کا نہیں؟؟ اور کون ہے جو اس سے نہیں ؟؟
غزالہ نے شُکرانے کے نفل پڑھ کر بے اختیار اُمڈ آنے والے آنسوﺅں کو صاف کرتے ہوئے سوچا۔ آج یوسف صاحب کی رپورٹ آگئی تھی وہ پہلی اسٹیج کے کینسر میں مُبتلا تھے اور اس کا علاج بقول ڈاکٹر ز کے95فیصد مُمکن تھا۔ ان کا آپریشن اور کیموتھراپی کے بعد ان کے صحت یابی کے امکانات روشن تھے۔ پورا گھر لگتا تھا کسی بھیانک خواب سے بیدار ہو گیا تھا۔ وہ خوشی سے رو رہے تھے۔ بیماری بڑی تھی مگر اُمید اس سے بھی زیادہ بڑی تھی ۔کیسا طوفان تھا جو آنے سے پہلے ٹل گیا تھا۔ وہ سب ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دُعاﺅں کو سُن لیا تھا ان کی آس کو ٹوٹنے نہیں دیا تھا۔ 
کبھی تشویش کہتی تھی اندھیرا اب نہ جائے گا کبھی اُمید کہتی تھی اُجالا ہونے والا ہے ۔غزالہ نے یوسف صاحب کو سوپ پلایا اور ان کے کہنے پر تکیہ سیدھا کر دیا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اخبار کی سُرخیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ عالم آراءنے جلدی سے بیٹھ کر سر ہانہ اونچا کیا تو وہ آرام سے بیٹھ گئے۔ اخبار ہاتھ میں تھا وہ خبریں پڑھتے ہوئے تبصرہ کرنے لگے، بالکل پہلے کی طرح ، آج ان کی طبیعت بحال لگ رہی تھی ۔غزالہ کا خوشی سے سانس رُکنے لگا، آنسوﺅں نے اس کا گلا بند کر دیا تھا۔ یہ آنسو بھی عجیب شے ہیں غم کی شدت ہو یا خوشی کا احساس کسی موقعے پر انسان کو تنہا نہیں چھوڑتے، بڑا سچا ساتھ ہے ان کا روح اور جسم جیسا ،یا وجود اور سائے کی طرح وہ یوسف صاحب سے آنسو چُھپانے کی خاطر پیٹھ موڑ کر کھڑکی سے جھانکنے لگی پھر ایسے ہی رُخ پھیر ے پھیرے ماں کو خبر کی ”امی!!میں زرا باہر دیکھ کر آتی ہوں، بھائی جان نے کال کی تھی۔ وہ آرہے ہیں بس میں ابھی آئی“۔
”ٹھیک ہے زرا لابی میں گھوم پھر لو ۔ پھر بھائی کے ساتھ آجانا اور زرا آتے ہوئے پانی کی بوتل لیتی آنا“ انہوں نے اسے اجازت دے دی ۔ وہ باہر آگئی، لفٹ کے بجائے اس نے سیڑھیوں سے اُترنا مناسب سمجھاوہ بچوں کی طرح سیڑھیاں گنتی ہوئی نیچے آگئی، سامنے ہی ایمرجنسی وارڈ تھا ایک فیملی شاید ایکسیڈینٹ کا شکار ہو کر آئی تھی۔ ہلکی پھلکی سی چوٹ پر عورت نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا اس عورت کے بچے الگ سہمے ہوئے تھے مرد جو کہ غالباً اس عورت کا شوہر تھا اسے بڑے دُلار سے تسلی دے رہا تھا اور پاس کھڑی معمر خاتون انتہائی بے زاری سے تماشہ دیکھ رہی تھیں ۔وقتاً فوقتاً وہ بھی اس ماڈرن اور فیشن ایبل عورت کو بے زاری سے بڑے دہمی لہجے میں تسلی دے رہی تھیں ۔ ان کے ہر ایک انداز سے بے زاری اور نا پسندیدگی جھلک رہی تھی۔ غزالہ کو یہ منظر بڑا دلچسپ لگا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایمر جنسی وارڈ میں داخل ہو گئی ۔پاس کھڑی نرس نے ا سے دیکھ کر ایک شناس تبسم کیا۔ اس ہسپتال کے ڈاکٹرز اور ملازمین اب ان کے خاندان کو پہچاننے لگے تھے اور عزت سے پیش آتے۔ ان سب لوگوں کا بھی یہی حال تھا وہ بھی ہر ایک سے بلا تفریق حیثیت و مرتبہ تکریم و تعظیم سے پیش آتے ۔ عالم آراءنے اپنے بچوں کو ہمیشہ یہی سکھایا تھا۔ جس چیز کی خواہش ہو اسے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دو ، تمھارے پاس اس چیز کی فراوانی ہو جائے گی پھر چاہے وہ دولت ہو، علم ہو عزت یا پھر خوشیاں۔۔۔یہی وجہ تھی کہ ہر جگہ ان کو اہمیت اور عزت دی جاتی تھی ۔ 
غزالہ اندر آئی تو معمر خاتون چونک گئیں ان کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ فطری نیکی نے اس کے وجود کو عجیب سا نکھار عطا کیا تھا۔ ”اسلام علیکم “ غزالہ نے معمر خاتون کو سلام کیا ۔ وہ مُسکرا دیں۔ ”وعلیکم السلام ‘ آپ کون ہیں بیٹا ؟َ؟ انہوں نے اسے دلچسپی سے دیکھا تو نوجوان عورت کے چہرے پر ناگواری چھا گئی۔ ”آنٹی!ً میں اوپر کے وارڈ سے آئی ہوں۔وہاں میرے ابو ایڈمٹ ہیں۔ ان کی طبیعت تھوڑی سی خراب ہے آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟؟ کیا ایکسیڈینٹ ہوا ہے؟ زیادہ چوٹ تو نہیں آئی ؟؟“ اس نے دونوں خواتین کے رویئے سے گھبرا کر ایک ساتھ کئی سوالات کر دیئے۔”بس بیٹا !! ایکسیڈنٹ تو ہوا ہے مگر میرا نہیں میرے بیٹے اور بہو کا، ان کی گاڑی کسی سوزوکی سے ٹکرا گئی مگر ہلکی سی ٹکر ہوئی تھی، اللہ نے بچت کر دی ۔ زیادہ چوٹ نہیں آئی احسان ہے میرے مالک کا ۔۔۔۔ زیادہ نقصان بھی نہیں ہوا بس گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے سے معمولی خراش آئی ہے دونوں کو !! “،ابھی انہوں نے بتانا شروع کیا ہی تھا کہ ان کی بہو غُصے سے تپ گئی۔
”واہ! یہاں پوری کلائی زخمی ہو گئی ، اتنی زوردار ٹکر تھی کہ ساری ہڈیاں چٹخ گئیں اور آپ فرما رہی ہیں کہ ذرا سی خراش آئی ہے۔ آفرین ہے آپ پر۔۔۔“ وہ دیکھنے میں جتنی اسٹائلش تھی زبان کے لحاظ سے اتنی ہی غیر مہذب، غزالہ اس کا لہجہ اور انداز دیکھ کر حیران تھی۔ ”واقعی کچھ لوگوں کو ہم کسقدر مہذب سمجھتے ہیں جب تک کہ وہ بول نہیں پڑتے“۔ اسے کسی دانا کی بات یاد آئی معمر خاتون خجل سی نظر آنے لگیں، مرد نے بھی انہیں خشگمیں نظروں سے گھورا۔ غزالہ کی پوزیشن عجیب سی ہو گئی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کھڑی رہے یا چلی جائے کہ اچانک ایک دراز قد آدمی ریز ریز قدموں سے چلتا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر سراسیمگی تھی۔ ”کیا ہوا امی !! وہ بزرگ خاتون سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کی بہو کی سمت بڑھا اور آن واحد میں اس کے شانے مضبوطی سے پکڑ لئے، ”کیا ہوا؟؟ تم ٹھیک تو ہونا؟؟ زیادہ چوٹ تو نہیں آئی منزہ !!! وہ بڑی محبت اور تشویش سے پوچھ رہا تھا۔ منزہ بڑی ادا سے مُسکرائی تھی۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: