Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیمز پر تجاویز اور طریقہ کار

***محمد مبشر انوار***
ہوا اور پانی زندگی کی 2بنیادی ضروریات ہیں ،جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں ۔ معاشروں میں ترقی سے قبل تک، یہ دونوں ضرورتیں انسان کیلئے وافر اس کرہ ارض پر موجود رہیں جبکہ بعد از ترقی انسانوں نے توکل کا راستہ چھوڑ کر لالچ و ہوس کا راستہ اپناتے ہوئے پانی کو ذخیرہ کرنا شروع کردیا۔ درحقیقت معاشرتی ترقی کے بعد جو نظام حکومت وضع ہوئے ،ان کے مطابق بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ٹھہری۔بڑھتی ہوئی آبادی و طبقاتی فرق نے وسائل کی منصفانہ تقسیم کا کردار حکومت کی ذمہ داری قرار دیااور اس امر کے حصول کی خاطر حکمرانوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے بنیادی ضرورت ،بالخصوص پانی سے متعلق منصوبہ بندیاں و ذخیرے تعمیر کرنے کی طرف راغب کیا۔ ان منصوبوںمیں بھی ایک آفاقی اصول کو ہمیشہ مد نظر رکھا گیا کہ پانی کے بہاؤ کے آخری سرے پر بسنے والوں کا حق فائق تسلیم کیا گیا اور ایسے کسی بھی منصوبے میں آخری کنارے بسنے والوں کے تحفظات کو ہمیشہ ترجیح دی گئی۔ ان کے حقوق کی یقین دہانی اور ترسیل آب کو آخری کنارے بسنے والوں کو فراہم کرنے کا حتمی وعدہ بھی کیاگیا۔ تقسیمِ برصغیر میں جہاں ایک طرف تقسیم کے بنیادی فارمولے پر بے ایمانی کی گئی تو دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،اپنی جھوٹی انا اور غاصبانہ فطرت کے عین مطابق ہند توا کے پیروکار ،پاکستان کے حصے کا پانی دینے سے بھی انکاری ہیں۔
ایک طرف سندھ طاس معاہدے کی مسلسل دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں(جس میں چند وطن فروشوں کے بکنے کے باعث اور مجرمانہ حکومتی غفلتوں کی وجہ سے)ہندوستان نہ صرف استعداد سے بڑے ڈیم تعمیر کر رہا ہے بلکہ اس آفاقی اصول کی نفی کرتے ہوئے پانی کے قدرتی بہاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے پاکستان کو آزادی کی کڑی سزا دینے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ ماضی میں بر سر اقتدار رہنے والی سیاسی جماعتوں او ر ان کے حکمرانوں نے ماسوائے اپنی تجوریاں بھرنے کے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا اور ہندوستان کی اس آبی یلغار کو یا تو سمجھنے کی اہلیت سے عاری رہے یا جانتے بوجھتے ہوئے اس سے چشم پوشی کی۔ہر دو صورتوں میں نقصان سراسر پاکستان اور اس کے ان شہریوں کا ہوا،جن کا جینا مرنا اس مٹی کے ساتھ ہے۔
علاوہ ازیں ،پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں کو اس حد تک اکسایا گیا کہ جہاں جہاں ایسے ذخیرے بنانے کے قدرتی مواقع موجود تھے،وہاں کی سیاسی اشرافیہ اس کی مخالفت پر مامور جبکہ آخری کنارے پر بسنے والے بھی ان ذخیروں کے خلاف،نتیجہ یہ کہ ریاست پاکستان تقریباً 21 ارب ڈالر کا قیمتی پانی ہر سال سمندر برد کرنے پر مجبورہے ۔ یہ وہ قیمتی پانی ہے جو ڈیمز موجود ہونے پر پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زندگی کا ضامن ہوتا۔زمینوں کو سیراب کرتا،لہلہاتی فصلوں کا موجب ہوتا ،دنیا کی سستی ترین بجلی پیدا کرتا،ملکی صنعت کو فروغ دیتا،کساد بازاری میں بھی صنعتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوتیں اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہتے ہوئے اپنے شہریوں کوخوشحالی کی منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے فخر سے دیکھتامگر افسوس! یہ ہو نہ سکا اور آج عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 2025تک پاکستان پانی کے حوالے سے قحط زدہ ملک ہو گا۔چشم تصور اس روح فرسا صورت گری سے چھلک اٹھتی ہے کہ یہ خوبصورت ترین خطہ زمین جسے قدرت نے ہر نعمت سے نواز رکھا ہے،کس طرح نا اہلوں کے ناہلی کے باعث اس کے بنجر ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، اندرون ملک حکومتی عدم پالیسیوں کے باعث،غلط لائحہ عمل و ترجیحات کے باعث،حرص و ہوس و لالچ کے زیر اثر ،بد نیتوں نے ایسے ایسے منصوبے وضع کئے جن کی لاگت اربوں روپے تک پہنچی مگر اس کے فوائد صفر بٹا صفر سے آگے نہ جا سکے لیکن حکمرانوں اور افسر شاہی کے گماشتے ایسے منصوبوں کے روبہ عمل آنے پر راتوں رات نہ صرف امیر کبیر ہوگئے بلکہ ان بے ضمیروں نے اپنے مستقبل کے ٹھکانے بھی دوسرے ممالک میں بنا لئے۔ مرنے کیلئے پاکستان اور پاکستانیوں کو چھوڑ دیا،ایسے میر جعفروں اور میر صادقوں کی تعداد کسی بھی صورت چند ہزار سے زیادہ نہیں مگر ہزارپا کی طرح وہ اس ارض پاک پر مسلط ہیں اور بجائے اسکے کہ اپنے علم و ذہانت سے اس ملک کی ترقی کے منصوبے بناتے،انہوں نے فقط اپنی ترقی کے منصوبے ہی بنائے ۔ نئے پاکستان میں امید تو یہی تھی کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا لیکن اطلاعات کے مطابق دروغ بر گردن راوی،جس طرح معاملات طے کئے جا رہے ہیں،وہ دعوؤں کی نفی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
خیر بات کہیں سے کہیں جا نکلی،چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارنے پانی کی اس کمیابی کا نوٹس لیتے ہوئے آنے والی نسلوں کی خاطر ایک انتہائی مثبت قدم اٹھایا اور عوام سے اپیل کی کہ ڈیمز بنانے کی خاطر چندہ دیں تا کہ حکومتی نا اہلی و مجرمانہ غفلت کا سد باب کرتے ہوئے ڈیمز بنا کر پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کیا جا سکے۔ گو کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ اقدام انتہائی مناسب ہونے کے باوجود ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کے باوجودعوام نے ایک بار پھر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے معاملے کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے اس اکاؤنٹ میں جوق در جوق رقوم جمع کروانا شروع کر دیں مگر صد افسوس کہ شنید ہے ، بینکوں میں تعینات چند کالی بھیڑوں نے اس سنگینی کا احساس کرنے کی بجائے ایک بار اپنی چاندی کرنے کی سوچی اور بعینہ ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کی نظیر سامنے رکھتے ہوئے رقوم اپنے نجی اکاؤنٹس میں منتقل کرنا شروع کر دی۔دور حاضر میں ریاستیں کبھی چندوں پر نہیں چلا کرتیں بلکہ بہترمنصوبہ بندی کے ذریعے اپنے معاملات کو آگے بڑھاتی ہیں تا کہ اپنے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ابھی تک اس فنڈ میں قریباً 3 ارب روپے ہی جمع ہو سکے ہیںاور یہ رقم بھی وزیراعظم عمران خان کی اپیل کے بعد ہوئی ہے۔ کیا اس رفتار سے حاصل ہونے والی رقوم سے 1400ارب روپے کا ہدف، 2025 سے پہلے حاصل ہو سکے گا؟تریاق کے آنے سے پہلے جاں بلب مریض کوچ نہیں کر جائے گا؟اس سلسلے میں چند قابل عمل اور بہترتجاویز ،جو سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں،اپنانے میں کوئی حرج نہیں بجائے اسکے کہ عالمی برادری میں تماشہ بنا جائے۔مثلاً کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ حکومت غیر ملکی تارکین وطن پر ،جو قریباً10 ملین ہیں،وطن آنے پر صرف ڈیم کی تعمیر تک10،20،50 یا100 ڈالر ڈیم فنڈ کے ضمن میں وصول کرتی؟ غیر ملکی تارکین وطن سے ڈیمز کی تعمیر کے لئے آسان شرائط پر قرضے کی اپیل کرتی؟یا ڈیمز کے نام پر ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کا قیام عمل میں لاتی ،جس کے ہر شیئر کی قیمت فقط 140روپے رکھی جاتی اور 1400ارب روپے کے مساوی (تقریباً10 ارب )شیئرز مارکیٹ میں جاری کئے جاتے اور مطلوبہ رقم حاصل کر لی جاتی یا کرپٹ مافیا کے ذمہ واجب الادا رقوم قانونی طریقے سے جلد اور پوری وصول کرنے کا طریقہ وضع کیا جاتا۔ پاکستانی بطور قوم کب تک اپنی حب الوطنی و ایثار کیشی کے ثبوت دیتے رہیں گے،اور حکومتیں کب اس قابل ہوں گی کہ اپنے طریقہ کار اور ترجیحات کا درست تعین کرتے ہوئے عوام کو پانی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا سکیں؟؟؟
 

شیئر:

متعلقہ خبریں