Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذہبی آزادی کا مسئلہ

ہجومی تشدد کو فروغ دینے میں سوشل میڈیا ملوث ہے
معصوم مراد آبادی
    ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف منافرت اور تشدد کے پھیلاؤ سے ملک کے اندر ہی انسانی حقوق کے کارکن فکر مند نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر بھی ہندوستان میں فسطائیت کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش پائی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں یوں تو کئی بار اس انتہائی تکلیف دہ صورتحال پر اپنی فکرمندی کا اظہار کرچکی ہیںلیکن اب خود امریکی کانگریس نے متنبہ کیا ہے کہ ہندوستان میں ہندو ازم کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے سیکولرزم کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں جاری ایک رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتے ہوئے تشدد کے واقعات سے ہندوستان میں سیکولرزم کی جڑیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
     کانگریشنل ریسرچ سروس (سی آرایس) کی یہ رپورٹ اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں سب سے زیادہ تشویش کا اظہار سیکولرزم کو لاحق خطرات پر کیاگیا ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت کہے جانے والے ہندوستان میں سیکولرزم ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس پر اس ملک کی یکجہتی اور اتحاد کی بنیاد استوار کی گئی ہے۔ ملک کے اندر مختلف مذاہب اور عقیدوں کے لوگوں کو جو چیز ایک لڑی میں پروتی ہے، وہ دراصل سیکولرزم ہی ہے۔ دستورسازوں نے سیکولرزم ہی کو اس ملک کی بقاء اور تسلسل کی بنیاد تسلیم کیاتھا اور ملک کے تمام باشندوں کو مذہب ، ذات ، رنگ ونسل میں مختلف اور متضاد ہونے کے باوجود یہ گارنٹی دی گئی تھی کہ اس ملک کا ہر شہری برابر ہوگا اور اس کے انسانی اور مذہبی حقوق کو مکمل تحفظ حاصل رہے گا لیکن اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں نفاق پیدا کرنے والی طاقتیں آزادی سے قبل ہی منظم ہوگئی تھیں اور انہوں نے ملک میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کی اجارہ داری قائم کرنے کی غرض سے اس ملک کے کمزور طبقوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔
     آزادی کے کئی برس بعد تک ان طاقتوں کو سراٹھانے کا موقع نہیں ملا کیونکہ بابائے قوم مہاتماگاندھی کے قتل میں ان طاقتوں کی شمولیت نے انہیں حاشیے پر پہنچا دیا تھالیکن کمال عیاری اور مکاری سے یہ طاقتیں اپنی خفیہ سرگرمیوں میں ملوث رہیں  یہاں تک کہ انہوں نے زندگی کے ہر میدان میں اپنی ذہنیت کے لوگ پیدا کرکے پورے ملک کے ماحول کو زہر آلود بنادیا۔ آج جب یہ طاقتیں مکمل اقتدار میں ہیں تو یہاں کمزور طبقوں اور بالخصوص مسلمانوں کا جینا محال کردیاگیا ہے۔
    سی آرسی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور تشدد کے واقعات سمیت ریاستی سطح پر قانون سازی ، گائے تحفظ قانون، غیر سرکاری تنظیموں کو حاصل بے لگام آزادی جیسے عناصر ہندوستانی ریاست کے بنیادی نظریے کو مسخ کررہے ہیں۔ آزاد ذرائع کی طرف سے تیار اور شائع کی گئی اس رپورٹ کا عنوان ہے ’’ہندوستان : مذہبی آزادی کا مسئلہ‘‘ اس میں کہاگیا ہے کہ ہندوازم باقاعدہ سیاسی طاقت کے روپ میں ابھررہا ہے اور یہ طاقت گزشتہ چند دہائیوں سے سیکولرزم کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہے جس کے نتیجہ میں مذہبی آزادی کا تصور خیال خام بن چکا ہے۔
    جنوبی ایشیاء امور کے ماہر ایلن کورانٹ کی طرف سے مرتب کی گئی اس رپورٹ کا مقصد امریکی کانگریس کو حالات سے آگاہی دینا تھا۔ 20صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ہندوستان میں تشدد کے واقعات کے پھیلنے کا بڑا سبب سوشل میڈیا ہے، جہاں جذبات کو بھڑکانے کیلئے بھرپور کام ہورہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ 2014میں نریندرمودی کی جماعت بی جے پی کی کامیابی کے بعد مذہبی آزادی کے مسائل نے جنم لینا شروع کیا ہے۔ اس حوالے سے کہاگیا ہے کہ بی جے پی نے اترپردیش سمیت متعدد ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے جہاں 20کروڑ کی آبادی میں ایک تہائی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
    سی آر ایس رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی کے باعث امریکہ اور ہندوستان کے مابین تعلقات میں تفریق پیدا ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی پر امریکی سینیٹرز اور اراکین کانگریس نے تشویش کا اظہار کیاتھا۔ انہوں نے ہندو انتہا پسندی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسپیکر پال ریان کو خط لکھا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ ہندوستان میں ہندوا نتہا پسندی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث وہاں بسنے والی اقلیتوں کو قتل وغارتگری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
    اس رپورٹ میں اقلیتوں کیخلاف پھیلنے والے تشدد کیلئے سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر چلائی جارہی مہم کو قصوروار ٹھہرایاگیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ملک میں فسطائی طاقتوں نے حالیہ عرصے میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے سب سے زیادہ زہریلا پروپیگنڈہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کیا ہے۔ اس کام کیلئے فرقہ پرست طاقتوں نے ہزاروں لوگوں کی فرضی آئی ڈی بناکر فیس بک اور اپنے ہم خیال لوگوں کو واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کرکے انتہائی گھناؤنی پروپیگنڈہ مہم چلائی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس تعلق سے ہمارا میڈیا بھی جانب دارانہ رول ادا کررہا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں ایسی ایسی گھناؤنی چیزیں عام کی جاتی ہیں کہ جن کی نہ تو قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی انسانیت۔ مسلمانوں کیخلاف منافرت پھیلانے کیلئے فسطائی طاقتیں پہلے جن افواہوں کو سینہ بہ سینہ فروغ دیتی تھیں انہیں سوشل میڈیا نے پَر لگادیئے ہیں۔
     اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو فسطائی طاقتوں کا سب سے بڑا ہتھیار وہ افواہیں تھیں جو مسلمانوں کو محور میں رکھ کر پھیلائی جاتی تھیں اور جن سے برادران وطن کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرکے مسلمانوں کو حالات کا ایندھن بنایاجاتا تھا۔ سوشل میڈیا کے فروغ کے ساتھ اب اس کی نوعیت موب لنچنگ (ہجومی تشدد) میں بدل گئی ہے۔ ملک میں ہجومی تشدد کی وارداتوں کو فروغ دینے اور ان کا دفاع کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ سوشل میڈیا کا ہے، جسے ہمارا الیکٹرانک میڈیا اعتبار عطا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔

شیئر: