Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم صنفی روابط ، غیر فطری اور گھناؤنا عمل

 انسانی قانون کسی حال میں قانونِ الٰہی کا بدل نہیں ہو سکتا، قوانینِ الٰہی کے فائدے، حسنات و برکات کو کسی انسانی قانون کے ذریعہ حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا
 حافظ محمد ہاشم صدیقی۔ جمشید پور
     آج ہند میں ہم صنفی روابط کے حا می جس طرح جوش و خروش سے خوشی منارہے ہیں اور میڈیا  والے ان کی خوشی کو دکھا کر داد و تحسین حاصل کر رہے ہیں، استغفراللہ، استغفر اللہ، تو بہ ہزار بار توبہ ۔ذر ا ذہن کے پر دے پرزور ڈالیں قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی اسی طرح خوش ہو رہی تھی اور بے حیائی کا مظاہر ہ کر رہی تھی جب اللہ نے عذاب کے فرشتوں کو حضرت لوط علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور پھر اللہ کی پکڑ ہوئی اور وہ قوم نیست و نا بو دکر دی گئی۔
     6 ستمبر 2018 کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نیہم صنفی روابط کی خواہش کو آزادی کے نام پر پوری کردی ۔5 رکنی بنچ نے  158سالہ پرانے قا نون انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کوختم کر نے کا فیصلہ سنا دیاجس میں ہم صنفی روابط کو قابل تعز یر قرار دیا گیا تھا ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا نے اپنا فیصلہ سنا تے ہوئے کہا "جنسی رجحان ایک طبعی مظہر ہے ۔اس کی بنیاد پر کوئی تفریق دستوری حقوق کے خلاف ہے "۔ ایک اور جج اندو ملہو ترا نے اپنا فیصلہ ان الفاظ میں سنا یا "تاریخ معذرت پیش کر تی ہے کہ ہم صنفی روابط کے حامیوں کو ان کے حقوق ملنے میں دیر ی ہوئی " ۔تفصیل کے لیے پورا فیصلہ ضرور پڑھیں، اللہ کا غضب کب نا زل ہو گا، اللہ توبہ  اللہ توبہ ،توبہ… اللہ بچائے ۔
    مذہبِ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور کامل دستورِ زندگی ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے کسی موڑ پر بے لگام نہیں چھوڑتا کہ جیسے بھی چاہیں اپنی زندگی گزاریں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہوبلکہ وہ اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کے قانون کیخلاف زندگی گزارنے پر سراسر ذلت و نقصان ہے۔ جو چیزیں انسان کی شخصیت یا سماجی زندگی کیلئے فائدہ مند ہوں انھیں لازم اور ضروری قرار دیتا ہے اور جن چیزوں سے انسان کو اپنی نجی یا معاشرتی زندگی میں نقصان پہنچنے کااندیشہ ہو، اسلام ان چیزوں کی حوصلہ شکنی کرتاہے۔ معاشرہ کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کیلئے اور اسے شروفساد، بے حیائی، بدکرداری سے محفوظ کرنے کیلئے مذہبِ اسلام نے جو فطری قانون عطا فرمائے ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔
     انسانی نسل کی افزائش اور انسانوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مرد اور عورت کے باہمی تعلق پر ہے۔ جس معاشرے میں یہ تعلق جتنا مضبوط ہوگا وہ معاشرہ انتہائی پر امن اور خیرو برکت کا حامل ہوگا اور جس مذہب و معاشرے میں اس تعلق سے ضوابط نہیں ہوں گے، اس معاشرے کی مثال اس جنگل کی سی ہوگی جہاں جانور بغیر قاعدۂ کلیہ کے اختلاط کے عمل سے گزرتے ہیں۔
    اسی لئے مذہبِ اسلام نے عورتوں اور مردوں کی مجرد( بن بیاہا) زندگی کو عیب قرار دیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو نکاح کی ترغیب دی ہے۔ نکاح کو آسان سے آسان کرنے کی تاکید کی گئی ہے حتیٰ کہ غلاموں اور باندیوں کے نکاح کی بھی ترغیب دی گئی ہے اور بتایا گیاکہ نکاح معاشی اور اقتصادی پریشانیوں کا بھی خاتمہ کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:نکاح کردو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں (غلاموں ) اور کنیزوں کا، اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ غنی کردیگا ۔‘‘ (النور32)۔
    صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ ’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت رکھتا ہو، اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نگاہ کو نیچا رکھتا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ اور جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا ہو اسے چاہئے کہ شہوت کا زور کم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً روزہ رکھا کرے۔
    « اغلام بازی غیر فطری عمل ہے:
    آج کل یہ بحث بہت زوروں پر ہے کہ ہم صنفی روابط آیا فطری ہے یا غیر فطری؟ 2جولائی 2009 کو دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اجیت پرکاش اور جسٹس ایس مرلی دھرن نے section-477Aکے تحت یہ فیصلہ دیاکہ مرد، مردسے اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے۔ اسی طرح عورت، عورت سے اپنی خواہش پوری کر سکتی ہے، کوئی جرم نہیں (العیاذ باللہ)۔
    چند ہوس پرستوں کا حوصلہ اس فیصلہ سے بڑھا ہے اور وہ سپریم کورٹ جا پہنچے۔ سپریم کورٹ نے 11دسمبر 2013 کو دفعہ 377 کے تحت اسے غلط قرار دیا اور یہ فیصلہ دیا کہ ہم صنفی روابط نہ صرف غلط ہے بلکہ جرم بھی۔ دفعہ 377کے تحت ہم صنفی روابط غیر قانونی ہے اور اس فعل میں ملوث لوگوں کو اس دفعہ کے تحت سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔ فیصلہ آنا تھا کہ میڈیا (جیسا کہ ہمیشہ ہوتاہے) اس کو لے اڑا اور یہ کہ طرح طرح سے یہ لوگوں کی آزادی پر حملہ ہے وغیرہ وغیرہ کہنا شروع کردیا۔ اور اب تو حد ہوگئی کہ اس فیصلہ کے خلاف ملک کے بڑے بڑے لیڈران نے بھی واویلا مچارکھا ہے ۔
    اللہ نے ہر جاندار کے نر و مادہ جوڑ ے پیدا فرمائے ہیں۔ یہ نر و مادہ جوڑے نسل کی بقاکیلئے ہیں۔ ان کا آپس میں ملاپ قدرت کے قانون کے عین مطابق ہے۔ یادرہے انسانی قانون کسی حال میں قانونِ الٰہی کا بدل نہیں ہو سکتا اور قوانینِ الٰہی کے فائدے، حسنات و برکات کو کسی انسانی قانون کے ذریعہ حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ دنیا میں برپا فساد کا جائزہ لیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔
    «لواطت حرام و سخت گناہ ہے:
    ہم صنفی روابط خواہ وہ مرد مرد سے ہویا پھر عورت عورت سے ہو ،دونوں ہی حرام و گناہ اور فعلِ قبیح ہے۔ لوط علیہ السلام کی قوم ہم صنفی روابط میں مبتلا تھی۔ اسی فعل قبیح کی وجہ سے ان پرعذاب آیا۔ قرآن فرما رہا ہے:اور (حضرت لوط علیہ السلام)کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا: وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہ کی، تم تو مردوں کے پاس جاتے ہو شہوت کے ساتھ عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم حد سے گزرگئے، اس قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہی کہنا ان کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ پاکیزگی چاہتے ہیں تو ہم نے اسے(لوط  ؑ) اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ (پانی) برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہو امجرموں کا(الاعراف84-80)۔
    حضرت لوط علیہ السلام اردن میں اترے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ سدوم (ایک قوم و علاقہ) کی طرف آپ کو مبعوث فرمایا۔ لوط علیہ السلام 5بستیوں کے نبی تھے۔ آپ ؑ نے دین حق کی دعوت دی اور قوم کو فعلِ باطل، بد فعلی سے روکا۔ عورت کو چھوڑ کر مرد کے ساتھ فعلِ بد کرتے ہو۔ ایسے فعل بد کا ارتکاب کرکے حد سے گزر گئے۔ یہ حرکت فطرت کے خلاف ہے۔ یہ حرکت انتہائی خبیث اور گندی ہے۔ اپنے قیمتی سرمایہ کو برباد کیا۔ مرد کونہ حمل رہتا ہے نہ وہ بچہ جنتا ہے۔ مرد کے ساتھ مشغول ہونا سوائے شیطانیت کے اور کیا ہے۔ اللہ عورت کے رحم میں بچہ دانی کو رکھا ہے جس میں منی جذب کرنے کی طاقت ہے، مرد میں نہیں۔ مرد میں یہ غلط کام کرنے والے کرانے والے کو سخت بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جریان، سوزاک، آتشک، ایڈز(AIDS) وغیرہ وغیرہ۔
      آج ایڈز نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ امریکہ، یورپ بلکہ ہندوستان میں بھی یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ حال ہی میں محکمہ صحت کے وزیر کا بیان آیا کہ ایڈز کی بیماری ہندوستان کو بھی تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہی ہے، اخبار بینوں کی نظر سے گزرا ہوگا۔ خدا بیزار ذہنیت و تہذیب کے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیا ایڈز خدائی عذاب نہیں ؟ یقینا یہ خدائی عذاب ہے۔
    « سب سے سخت عذاب قومِ لوط پر آیا:
     قومِ لوط کی بستیاں نہایت ہی سرسبز وشاداب تھیں۔ غلہ او رپھل کثرت سے پیداہوتے تھے۔ زمین کا دوسرا خطہ اس کے مثل نہ تھا اسی لئے ہر طرف سے لوگ یہاں آتے اور اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ ایسے میں ابلیس بوڑھے شخص کی صور ت میں نمودار ہوا اور لوگوں کو ورغلا یاکہ اگر تم مہمانوں کی کثرت سے نجات چاہتے ہو تو جب لوگ آئیں تو یہ خبیث کام یعنی بدفعلی کرو۔ اس طرح بدفعلی انھوں نے شیطان سے سیکھی اور ان میں رائج ہوئی۔ قومِ لوط اپنے مہمانوں سے بد فعلی کرنے لگے تو مہمان آنا بند ہوگئے۔ مہمانوں کے نہ آنے سے برکت ختم ہوگئی (خزائن العرفان )۔ آج بھی جو لوگ اس کو کرتے کراتے ہیں اور اس کی آزادی چاہتے ہیں وہ شیطان کے کام کو کر رہے ہیں۔ قرآن میں دوسرے مقام پر عذابِ الٰہی کا ذکر ہے۔ ارشاد ربانی ہے: حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کو زیر و زبر کر دیا، اوپر کا حصہ نیچے کردیا اور ان پر کنکریاں، نوکیلے پتھر کی بارش کی جو تہہ بہ تہہ تھے یعنی مسلسل تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ دور نہ تھے(ہود83-82)۔
    پتھروں کامینہ یعنی مسلسل نوکیلے پتھر برستے رہے۔ ہر شخص کا نام پتھروں پر لکھا ہوا ہوتا۔ وہ شخص جہاں ہوتا خواہ سفر میں، بستی کے باہر بھی وہ نوکیلا پتھر اسی پر جاکر لگتا اور وہ لہو لہان ہو کر ہلاک ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے عجیب طرح کی بارش فرمائی کہ ایسے پتھر برسے جو گندھک(Sulpher)اور آگ سے مرکب تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بستی میں رہنے والے زمین میں دھنسا دئیے گئے اور جو سفر میں تھے وہ پتھریلی بارش سے ہلاک ہوئے۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ناز ل ہوئے اور انھوں نے اپنا بازو قومِ لوط کی بستیوں کے نیچے ڈال کراس خطہ کو اکھاڑ لیا اور چوتھے آسمان پر اٹھا لیا اور ایسا اٹھایا کہ برتنوں کا پانی تک نہ چھلکا۔ سونے والے سوتے رہے جاگ نہ سکے اور آسمان کے قریب پہنچ کر تمام بستیوں کو اَوندھا کرکے گرا دیا، جوزمین میں میلوں اندر دھنس گئے۔
     قومِ لوط کی 5 بستیاں تھیں۔ پانچوں پر عذاب آیا اور پتھروں کی سخت بارش ہوئی۔ قومِ لوط پر جو عذاب آیا وہ کسی قوم پر نہ آیا۔ اغلام بازی کی وجہ سے اتنا سخت عذاب آیا (تفسیرنور العرفان)۔
    «مسلمانوں کو انتباہ:
     اسلامی معاشرہ کو اس گندی، خبیث، گھناؤنی عادت سے بچانے کیلئے اللہ کے رسول نے اس جرم کے کر نیوالے کیلئے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔ رسول اللہ کا فرمان ِ عالیشان ہے:من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوالفاعل و المفعول’’ جس کو قوم ِ لوط کا فعل کرتے دیکھو تو فاعل(کرنیوالا) اور مفعول(کرانیوالا) دونوں کو قتل کردو۔‘‘( ابو داؤد )۔
     حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے آپؓ کی خدمت میں خط لکھااور پوچھا: ایسے مجرم (لوطی) کی کیا سزا ہے ؟ آپ نے تمام صحابہ کرام کو مشورہ کے لئے طلب کیا۔ تمام صحابہ نے سخت سزائیں تجویز فرمائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز دی کی ایسے دونوں شخص کو تلوار سے قتل کر دیا جائے۔ دونوں لاشوں کو جلا دیا جائے۔ تمام صحابہ کرامؓ نے آپ کی رائے کی تائید و حمایت کی چنانچہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو یہی جواب لکھا گیا اور انھوں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ حاکم وقت کو اختیار ہے کہ ایسے مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے تاکہ کسی اور کو اس کے ارتکاب کی جرأت نہ ہو۔
    «ہم صنفی روابط حرام ہیں، منکر کافر ہے:
    فاحشہ وہ گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے۔ کفر اگرچہ بد ترین گناہِ کبیرہ ہے مگر اسے رب نے فاحشہ نہ فرمایا کیونکہ نفسِ انسانی اس سے گھن نہیں کرتی مگر لواطت تو ایسی بری چیز ہے کہ جانور بھی اس سے متنفرہیں سوائے خنزیر (سور) کے۔ سور بھی یہ فعل ِبد کرتاہے۔ لوطی شخص بیوی کے قابل نہیں رہ جاتا۔ یہ بد کاری تمام جرموں سے بڑا جرم ہے۔ مردمیں گھناؤنا کام کرنیوالے کو سخت بیماریاں پید اہوتی ہیں۔ انہی وجوہ سے مذہبِ اسلام میں اس کی سخت سزا ہے۔ امامِ اعظم کے یہاں دونوں کو بہت اونچی  پہاڑ ی یا اونچی عمارت سے گراکر اسے پتھر سے مارمار کر ہلاک کردے۔ زنا سے بھی سخت سزاہے۔ کنوارے زانی کیلئے 100 کوڑے ہیں۔
    یہ غلط کام شیطان نے ایجادکرایا۔ ایک روز حسین وجمیل لڑکا بن کر آیا اور باغ میں گھس گیا اور باغ والے کودعوت دی کہ ایسی حرکت کرو۔ اس نے کیا۔ پھر اس نے لوگوں کو بتایا اور اس وبا کو پھیلا دیا۔ یہ بات کفر سے بھی گری ہوئی ہے۔ کفر سے لوگ گھن نہیں کرتے مگر اس سے سب گھن کرتے ہیں۔ اس فعل کے کرنیوالے کو جوع البقر (ایک بیماری کانام)بھی کہتے ہیں۔ زیادہ کھانے والی بیماری ہے۔ جتنا کھانا بھی کھالے بھوک باقی رہتی ہے۔ پورے کنواں کا پانی بھی پی لے گا تو پیاس نہیں بجھے گی۔ یہی حال نفس کا ہے( تفسیر ضیاء القرآن ، تفسیر خزائن العرفان )۔امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ظالم اور متکبر و بد فعلی کرنے والا اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم و بدفعلی کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتاہے اور ذلت و نامرادی کا منھ دیکھتا ہے چنانچہ ظالم و مظلوم اور بد فعلی کرنے والوں کی عبرتناک ہلاکت و بربادی کی داستانیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
    «بے حیائی بہت بری چیز ہے:
     اسلام میں ناموس و عزت کی بہت اہمیت ہے اس لئے قرآن نے عزت و ناموس کے لٹیرو ں کیلئے سخت سزاؤں کا اعلان فرمایا: اور زنا کے پاس نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت بری راہ ہے(بنی اسرائیل32)۔
     آج کی نو جوان نسل جو کھلے عام مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے اپنی آزادی کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم بالغ ہیں، ہمیں آزادی سے اپنی زندگی جینے کا حق ہے۔ میں مسلم نوجوانوں کیلئے مذہبِ اسلام کا نقطہ نظر واضح کر رہا ہوں۔ اسلام کے ماننے والے ہیں،اللہ کے واسطے اسلام کو سمجھئے، مانیے، عمل کریئے، اسی میں عافیت و فلاح اور بھلائی ہے۔ اسلام بے حیائی کی روک تھام کے واضح احکام کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے: وہ لوگ جو مسلمانوں میں بے حیائی پھیلنے کو پسند کرتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے، دنیا اور آخرت میں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ( النور 19)۔
    حیا و شرم تہذیبِ اسلامی کا اہم جز ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کھلے عام میڈیا میں قبیل فعل کی طرفداری آزادی کے نام پر کریں (اللہ ایمان سلامت رکھے۔ آمین!)۔
    «لوطی شخص حکیم اور ڈاکٹر کی نظر میں:
اطبا اسے بتلاتے ہیں سب امراض کی جڑ
قبر میں بھیج دے انسان کو اگر جائے بگڑ
    ہم صنفی روابط تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس کا کرنے والا مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے جو لاعلاج ہوتی ہیں۔ خدائی عذاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص عورت کے لائق نہیں رہ جاتا، نہ ہی عورت کو خوش کر سکتا ہے۔ اس کی طبیعت عورت کی طرف بالکل مائل نہیں ہوتی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس کی قوت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے(حکیم جرہانی)۔
    حکیم جرہانی نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے: اس فعل سے مفعول کا دل ضعیف ہوجاتا ہے بہت سے حکماء کا قول ہے کہ اس عادت والے کی آنتوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ جنسی ماہرین کاکہنا ہے دونوں کو کیڑے (جراثیم) پڑ جاتے ہیں۔ فاعل اور مفعول دونوں کو ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا خطرہ 100فیصد بڑھ جاتاہے۔شیخ الرئیس بو علی سینا کا قول ہے کہ ہم صنفی روابط مرض نہیں بلکہ یہ علت(عادتِ بد) ہے جو وہمی و کسبی ہے اور ایسے لوگوں کا علاج کرنا فضول ہے بلکہ ضرب سے کام لینا چاہئے۔ حکیم گیلانی نے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کوبھری مجلس میں شرمندہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی اس عادت بد سے باز آجائیں۔ حکیم ذکریا، حکیم اعظم خان اور حکیم گیلانی نے اس فعل کی سخت مذمت کی ہے اور ایسے مریضوں کے علاج کومنع کیاہے۔
    «موجودہ معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں:
    معاشرے میں دینی اسلامی روح پیدا کی جائے، اسلامی احکام کی اہمیت و عظمت دلوں میں اتاری جائے، آخرت کا خوف پیدا کیا جائے، اس بات کو دل و دماغ میں بٹھایا جائے کہ مومن کی سرخروئی اور کامیابی اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود کے اندر رہ کر جائز و بہتر طورپر زندگی گزاری جائے اور آخرت بھی سنواری جائے۔ غیر اسلامی کاموں اور گندے فعل سے پرہیز کیا جائے ورنہ اس کا انجام بھیانک اور خطر ناک ہے۔ عذابِ الٰہی سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ذہن نشیں کرایا جائے کہ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی حفاظت و بقا اور انسان کے فطری جذبات کی تسکین کیلئے جائز اور مناسب طریقہ ہے جو رب کریم نے بندوں کے لئے بنایا ہے۔
    نکاح شریعت کی نگاہ میں ایک پاکیزہ، ٹھوس، پائیدار اور دیرپا رشتہ ہے جو دیگر مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ نیز اس کے لئے الگ الگ قوانین اور ضابطے بھی ہیں۔ تمام مذاہب نے اسے صرف ایک رسمی تفریح اور دنیاوی ضرورت کے طور پر استعمال کیالیکن مذہب اسلام میں نکاح کو دنیاوی ضرورت کے ساتھ ایک دینی ضرورت بھی بتایا اور قربِ الٰہی کا سبب بھی بتایا۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:جب بندے نے نکاح کر لیا تو اس نے آدھا دین مکمل کر لیا اور باقی آدھا کیلئے وہ اللہ سے ڈرتا رہے(مشکوٰۃشریف)۔
    نکاح کرنے سے انسان اپنی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ گناہوں سے بھی بچتا ہے اور سماج میں عزت کی زندگی گزارتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تمام باتیں لوگوں تک پہنچائی جائیں۔ پمفلٹ بانٹے جائیں، جلسے منعقد کئے جائیں، نجی مجلسوں اورہوٹلوں، کلبوں میں بھی ان خیالات و نظریات کو عام کیا جائے۔ کمیٹیوں اور انجمنوں، علمائے کرام، دانشور حضرات اس پیغام کو گھر گھر پہنچائیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی طاقت و قوت عطا فرمائے۔ آمین۔
مزید پڑھیں:- - - -مرادِنبی حضرت فاروق اعظمؓ

رائے دیں، تبصرہ کریں

شیئر: