Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جعلی ہائوسنگ اسکیمیں اور خوار ہوتی عوام

احمد آزاد۔ فیصل آباد
آئے روز فراڈئیے خوش نما اور لچھے دار باتوں سے عوام الناس کا خون چوس رہے ہیں ۔ہر روز کوئی نیا چہرہ کسی نئے منصوبے کے ساتھ بیچارے عوام کی جمع پونجی کو ہڑپ کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے ۔کبھی دولت کو دگنا(ڈبل شاہ) کرنے کے روپ میں تو کبھی عام منافع سے زیادہ نفع دینے کے روپ میں کبھی کاروباری اتار چڑھائو کی باریکیوں کو لے کر انویسٹمنٹ کروانے کے روپ میں تو کبھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رقم انویسٹ کرنے کے روپ میں کوئی نہ کوئی ٹھگ مل ہی جاتا ہے ۔ماضی بعید میں ٹھگ سرراہ ملتے تو زیادہ سے زیادہ آپ کا بٹوہ مار لیتے یا پھر گھر میں موجود رقم ہتھیا لیتے لیکن آج کل کے ٹھگ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر میدان میں آئے ہیں۔پرانے ٹھگ تو گمنامی کی زندگی میں اپنی عافیت محسوس کرتے تھے لیکن اب کی بارگمنامی سے نکل کر بھرپوراشتہاربازی ،میڈیا کوریج اورپبلسٹی کے سارے لوازمات کو بروئے کارلاتے ہوئے عوام الناس کے پیٹ میں ہضم شدہ خوراک تک نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی اک روپیہ بھی اور کوئی زیور کا چھوٹا سا ٹکڑابھی گھر میں پڑا نہ رہ جائے ۔اس سارے فراڈ میں جہاں تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوتا ہے ،وہیں مزدور ، کاروباری اور زمیندار طبقہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ ان سب کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی اسی تناسب سے متاثرہوتے ہیں۔آنکھوں میں ایک صاف ستھرے اور اپنے ذاتی مکان میں رہائش پذیر ہونے کا خواب سجائے لوگ ان ہائوسنگ اسکیموں کا رخ کرتے ہیں اور مختلف اقساط و پلانز کو پورے کرنے کے بعد بھی عرصہ دراز گزر جاتا ہے اور ہائوسنگ اسکیم جوں کی توں رہتی ہے۔ نہ تو زمین ملتی ہے اور نہ ملکیتی حقوق اور بعض جگہوں پر اگر زمین و ملکیتی حقوق مل جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جی یہ ہاؤسنگ اسکیم /سوسائٹی متعلقہ ادارے سے منظور شدہ نہیں ۔ان سب مراحل سے اگر بندہ سرخرو ہوجائے تو پھر پانی ،بجلی وگیس اور نقشہ جات کی منظوری جیسے مراحل شروع ہوتے ہیں جو لمبے عرصے تک چلتے رہتے ہیں ۔
پچھلے دنوں ہاؤسنگ سوسائٹی کا شاید سب سے بڑا فراڈ پھر سے خبروں کی زینت بنا ہے ۔زمان پارک لاہور میںوزیراعظم پاکستان عمران خان کی رہائش کے باہر متاثرین ایڈن ہائوسنگ گروپ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ڈاکٹر امجد سمیت دیگر افراد کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ انصاف کی دہائی دی ۔خبروں کے مطابق وزیر اعظم پاکستان نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ مانگ لی ہے اور پھر اس سارے معاملے میں ایک مرکزی ملزم سابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کے دامادمرتضیٰ امجد کو ایف آئی اے نے دبئی سے گرفتار کرلیا۔ وزیراطلاعات کے مطابق سابق چیف جسٹس نے خودکیس سن کر ہاؤسنگ سوسائٹی والوںکو ریلیف دیا تھا ۔افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار،بیٹی اور سمدھی ڈاکٹر امجد اور داماد مرتضیٰ امجد اس سارے معاملے میں مطلوب ہیں جن میں سے مرتضیٰ امجد گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ باقی کو وزیراطلاعات فوادچوہدری کی اطلاعات کے مطابق جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا ۔ایڈن ہائوسنگ سوسائٹی کے متاثرین کی تعداد 10ہزار کے قریب ہے اور اشتہارات و لچھے دار گفتگو کے ذریعے تقریباً22ارب روپے لوٹ لئے گئے ہیں ۔سابقہ حکومتوں میں ایڈن سوسائٹی کے مختلف پروجیکٹوں میں جنکی تعداد 23کے قریب ہے، شروع شروع میں پلاٹ دئیے گئے۔ نیک نامی کمائی گئی اور پھر بعدازاں اقساط کی مد میں رقم لے کر فائلوں کی حد تک پلاٹ دھڑادھڑ فروخت کئے گئے ۔بعض متاثرین کے مطابق اک اک پلاٹ کو 10مرتبہ فروخت کیا گیا۔ جب مالکان کو محسوس ہوا کہ اب قانون کا شکنجہ ان کے خلاف سخت ہوچلا ہے تو ڈاکٹر امجد،مرتضیٰ امجد،ارسلان افتخاراور سابقہ چیف جسٹس کی بیٹی بیرون ملک فرار ہوگئے جن میں سے ایک کو پکڑا جاچکا ۔متاثرین سوسائٹی میں لازمی طورپر تارکین وطن بھی ہوں گے جن کی عمر کا بہترین حصہ بیرون ملک دولت کماتے اور پاکستان میں بھجواتے ہوئے گزر گیا ہوگا اور اب وہ بھی دیارغیر میں بیٹھے اپنے مستقبل کا فیصلہ سننے کو ترس رہے ہوں گے ۔ پراپرٹی ڈیلر اپنی زمینوں پرچند سڑکیں بناکر اور ایک دو پانی کی ٹینکی بنا کر متعلقہ گورنمنٹ ادارے کے کچھ افراد کو حصہ دے کر ہائوسنگ سوسائٹی بناکر بیٹھ جاتے ہیں ۔رقمیں جمع کی جاتی ہیں ، اقساط بروقت جمع کروانے کی وارننگ جاری کی جاتی ہے اور پھر جب آدھی سے زیادہ رقم ہائوسنگ سوسائٹی کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو متعلقہ گورنمنٹ ادارہ ایک اخباری اشتہار جاری کرتا ہے کہ مذکورہ ہائوسنگ سوسائٹی منظور شدہ نہیں ۔لین دین کرنیوالا خود ذمہ دارہوگا۔اب بندہ ان اداروں سے پوچھے کہ جب وہ اشتہاربازی کررہے تھے کہ فلاں جگہ پر بہترین سہولیات کے ساتھ بہترین لوکیشن پر اور پرفضاء مقام پر آپ کا گھر آپ کی راہ تک رہا ہے تو کیا حکومتی ادارے سو رہے تھے ۔موجودہ حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا اور ذمہ دار ادارے کو احتساب کا سامنا کروانا ہوگا تاکہ عوام کی لٹتی دولت میں کمی واقع ہوسکے۔
اگر ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی والوں سے رقم لے کر متاثرین کو دے بھی دی جائے تو کیا ان تکالیف کا ازالہ ممکن ہوگا جن مصائب و مشکلات میں رہ کر متاثرین نے پیٹ کاٹ کاٹ کر اقساط کی مد میں رقمیں جمع کروائی تھیں ۔اگر اُس وقت ایک جگہ کی قیمت 10لاکھ تھی تو آج5سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اسی جگہ کی مالیت’’ جس کی رقم اک متاثرہ شخص بروقت اداکرتا رہا ہے‘‘20سے30لاکھ لازمی طور پر ہوچکی ہوگی تواصل رقم کتنی بنتی ہے ؟اس حوالے سے بھی متعلقہ اداروں کو سوچ بچار کرنی ہوگی ۔
اس وقت پاکستان میں سیکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہائوسنگ سوسائٹیزاور اسکیمیں موجود ہیں اور اگر صرف شہر لاہور کی بات کی جائے تو قرب وجوار میں سیکڑوں کی تعدادمیں ہائوسنگ اسکیمیں اورسوسائٹیز موجود ہیں جن میں لوگ عرصہ دراز سے رقم دے رہے ہیں کہ جلد ہی انہیں ملکیتی حقوق مل مل جائیں گے جس کے بعد وہ اس زمین کے مالک بن جائیں گے لیکن ان میں سے کئی ایسی ہوں گی جو ایل ڈی اے سے منظور شدہ نہیں ہوں گی ۔مستقبل قریب میں جب ان سوسائٹیز واسکیموں کے حوالے سے ایل ڈی اے کی طرف سے انتباہ جاری ہوگاتو کیا ایل ڈی اے کے ذمہ دار بتانا پسند کریں گے کہ کن وجوہ کی بناء پروہ اتنا عرصہ چپ رہے اور یہ کہ متاثرین کو کس طرح سے وہ رقم واپس کریں گے ۔ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی پر ہی بس نہیں بلکہ کئی ایک بڑی بڑی اسکیمیں بھی کاغذات کی حد تک کام کررہی ہیں ۔اکتوبر 2017ء میں سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے کیبنٹ سیکریٹریٹ کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کے زون 4میں 64اسکیموں میں سے 50جعلی ہیں ۔اسلام آباد میں اگر یہ سب ممکن ہے تو اندازہ لگائیے کہ دوردرازعلاقوں میں کیا کچھ ممکن ہوگا؟ حکومت وقت کو فی الفور نیب و ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو احکامات جاری کرنے چاہئیں کہ ایل ڈی اے اور دیگر اضلاع کے اداروں کے خلاف بھی کارروائی شروع کریں اور کالی بھیڑیں نکال باہر کریں جو رشوت لے کر مجرمانہ خاموشی کا سبب بنتے ہیں اور اربوں کھربوں روپے پاکستانی عوام کے ڈبوکر عالیشان گھروں میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لوٹتے ہیں۔
 

شیئر: