Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیصلوں میں تاخیر درست نہیں

***ڈاکٹر منصورنورانی***
ہمارامیڈیا روزانہ پرانے ویڈیو کلپس چلاچلا کر خان صاحب کو یاد دلاتا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے آپ کیا کچھ کہاکرتے  تھے ۔کیسے کیسے انمول نظریہ ، اصول اور ویژن کی باتیں کیاکرتے تھے۔اقتدار ملتے ہی سب بھول گئے۔حکومت بنانے کیلئے آزاد ارکان کی خریداری سے لیکر معاش اور معیشت اورعوام الناس کی تکالیف سے متعلق اب تک کئے گئے سارے فیصلے ماضی میں کہی گئی اُن کی ساری باتوں پر اُن کا منہ چڑا رہی ہے ۔اقتدار اعلیٰ کے پہلے ہی مہینے میں گندم ،گیس اور بجلی مہنگی کرکے یہ کہا جارہا ہے کہ اِن سے غریب عوام پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔معاش اور معیشت کی تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے کو کم از کم اتناتو ضرور پتا ہوتا ہے کہ 2 وقت کی روٹی کھانے والوں کیلئے یہی چیزیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں ۔ہمار ی سمجھ میں نہیں آرہا کہ خان صاحب کے ماہرین معاشیات گذشتہ 10سالوں میںکیاکرتے رہے ۔ وہ سارے منصوبے کہاں چلے گئے جن کو بیان کرکرکے وہ سابق حکمرانوں پر بڑی تنقید یں کیاکرتے تھے۔ آج جب خود کا وقت آیا تو پھر وہی طرز عمل اپنانے لگے جس کی مخالفت میں تووہ ساتوں آسمان سر پر اُٹھالیتے تھے۔
خان صاحب ملکی قرضوں کے خلاف بہت بوتے رہے۔ شاید آج بھی بولتے ہیں کہ یہ قرضے گزشتہ 15,10 سالوں میں  6ارب ڈالرز سے 28ارب ڈالرز ہوچکے ہیں ۔عوام اُنہیں منتخب کرنے سے پہلے یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ اگر برسراقتدار آگئے تو نئے قرضے نہیں لینگے۔ظاہر ی طور پر یہی تاثر اب بھی ہمارے لوگوں پر ڈالا جارہاہے۔ حکومت ابھی تک یہی کہہ رہی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لے رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اِس بات سے انکار بھی نہیں کررہی کہ پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد سے سرکاری سطح پر کچھ مذاکرا ت ہورہے ہیں۔حکمرانوں کے مطابق یہ مذاکرات کسی اور ایشو پر ہورہے ہیں قرضوں کیلئے نہیں۔اب بھلااِن کی اِس توجیح کو کون تسلیم کرے گا کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے سے جو مشہور ہی غریب ملکوں کو قرضے دینے کیلئے ہیں ہمارے حکمراںاُن سے کسی اور معاملے پر مذاکرات کرکے خوامخواہ اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔ قوم کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ معاملہ کیاہے اور وہ کس کی دعوت پر یہاں تشریف لائے ہیں۔ایسا تو ہونہیں سکتا کہ وہ خود ہی اپنی مرضی سے ڈالروں سے بھرا بریف کیس اُٹھاکرہمیں زبر دستی لون دینے آگئے ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ کام سارے وہی ہورہے ہیں جو پہلے ادوار میں ہوتے رہے لیکن اب طریقہ کار بدل چکا ہے۔پہلے ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جایا کرتے تھے اب وہ بے چارے خود ہی چل کرآ گئے ہیں۔پہلے اُن کی سخت شرائط پرقرضے حاصل کرنے کے جواب میں ہمارے یہاں مہنگائی کی جاتی تھی مگر اب یہ کام ہم نے پہلے ہی کردکھایا ہے۔گیس ، بجلی اور گندم کے نرخ بڑھا کر اُن کی متوقع شرائط پرہم نے پہلے ہی عملدرآمد کرلیاہے لہذا ب ہم اپنے عوام کو یہ خوشخبری سنا سکیں گے کہ آئی ایم ایف نے کسی شرط کے بغیر ہمیں بیل آؤٹ پیکیج دے دیا ہے۔    
نئی حکومت نے اپنے لئے خود ہی سو دنوں کی پابندی لگائی ہے۔اُسے ایسا کرنے کو کسی نے نہیں کہاتھا۔اُن100 دنوں میں سے 40دن تو گزر چکے ہیں اوروہ اب تک کوئی کارکردگی دکھا نہیں پائی ۔اِن مقررہ100 دنوں میں سب سے بڑاکا م جو مکمل کامیابی سے اب تک ہوپایا ہے وہ وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی 8بھینسوںکا کامیاب نیلام ہے جن سے 23لاکھ روپے کی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع ہوپائی ہے۔کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نامزدگی کرکے خان صاحب نے خود ہی اپنے سابقہ بیان سے مکمل انحراف کیاہے کہ یہ کام وزیراعظموں کے کرنے کا نہیں ہوتا۔وہ جوش و جذبا ت میں یہ کہہ چکے تھے کہ دنیا میں کوئی وزیراعظم ایسا نہیں  جو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی نامزدگی کرے لیکن اقتدار سنبھالتے ہی نجم سیٹھی کو ہٹاکر اور احسان مانی کو نیا چیئرمین نامزد کرکے خود ہی اُنہوں نے اپنے قول و فعل کامذاق بنایا دیا۔سابقہ حکومت کی نجکاری پالیسی پر وہ بہت بڑے مخالف اور نقاد رہے ہیں۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری کا ایشو جب بھی سامنے آیااُنہوں نے ببانگ دہل اُس کی مخالفت کی ۔اب یہ دونوں ادارے اُن کے کسی فوری فیصلے کے منتظر ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی قابل فخر مایہ ناز ٹیم سودنوں میں اِن دونوں اداروں کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔خسارے میں چلنے والے ادارے یونہی حکمرانوں کی عدم توجہ کاشکار رہیں گے یاپھر کوئی مثبت اور ٹھوس تجویز اِن کی بہتری کا باعث بنے گی۔
منی بجٹ پیش کرکے قوم سے ساری مراعات واپس لے لی گئی ہیں۔سارے ترقیاتی کاموں پر پابندی لگادی گئی ہے۔صحت ، تعلیم اور بہبود پر خرچ ہونے والی ساری مختص رقوم پر کٹوتی کردی گئی ہے۔چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ کر حکومتی اخراجات پورے کئے جارہے ہیں۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے معاشی بہتری توکجا اُلٹا ایک خطرناک بحرانی صورتحال ضرور پیدا ہوسکتی ہے۔روپے کی قدر میں اچانک ایک بار پھر سے گراوٹ حکمرانوں کی ایسی ہی پالیسیوں کانتیجہ ہے۔حکومت کو اپنی کارکردگی اور حکمت عملی کاایک بار پھر جائزہ لینا ہوگااور ہنگامی بنیاد پر اُس کی اصلاح کرناہوگی۔ اپنی غلطیوں کااعتراف کرنا ہوگا اور ضد اور انا کو چھوڑ کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے فیصلے کرنا ہونگے۔ایسا نہ ہوکہ پھر دیر ہوجائے اور ہمارے پاس اپنی غلطیوں کے تدارک کا راستہ بھی معدوم ہوکر رہ جائے۔
 

شیئر: