Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت پر کمر بستہ

***سید شکیل احمد***
پاک فوج کے ترجما ن کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما  رانا مشہود کابیان بے بنیا د اور افسوسنا ک ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکڑ جنر ل میجر آصف غفور نے رانا مشہود کے اس بیان  پرکہ مسلم لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیا ن معاملا ت طے پا گئے ہیںکے شہو د پذیر ہو نے کے رد عمل میںکہا کہ ایسے غیر ذمہ دار روئیے ملکی استحکا م کیلئے نقصان دہ ہیں۔
فوجی ترجما ن کی بات درست ہے کیو نکہ ایسے بیانا ت سے سیاسی عد م استحکا م بھی پید ا ہوتا ہے جبکہ سیا سی استحکام ملک کی ترقی ، خوشحالی کا ضامن ہے۔ مشرقی پاکستان کا سقوط اسی عدم سیا سی استحکا م کا نتیجہ تھا۔ آج ملک جس موڑ پر پہنچا ہے وہ بھی اسی سیا سی عدم استحکا م کی بدولت ہے کہ جمہوری معاشرہ پنپنے نہ دیا گیا۔ بار بار مارشل لا نے ملک کو سیا سی عدم استحکا م کا شکار کیا چنا نچہ پاکستان گوناگوں مسائل کا شکا ر ہو کر رہ گیا ۔
جہا ں تک رانا مشہود کے بیان کی مشہو ر ی کی بات ہے تو اچنبھے کی بات ہے ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے بار ے میں اب تو عالمی سطح پریہی گما ن کیا جا رہا ہے کہ ملکی سیا ست میں اس کا اہم ترین کر دار رہا ہے اور ہے ۔ اسی آڑ میں پی پی کے رہنما  بلا ول بھٹو نے عمر ان خان کو منتخب کی بجا ئے نامزد کر دہ وزیر اعظم کہا ۔بہر حال ا س بات میں کیا صداقت ہے تاہم اپو زیشن لیڈر ایسی بات کیا کر تے ہیں یہ ان کے سیا سی جھو ل ہیں مگر جو بات رانا مشہود کی  ہے وہ اسلئے قابل قبول نہ تھی کیو نکہ ایسے معاملا ت کو منظر عام پر نہیںلا یا جا تا اور وقت سے پہلے تو لا یا ہی نہیں جاتا  تاہم ایک بات ہے کہ رانا نے اسٹیبلشمنٹ کا نام اپنے ہونٹو ں سے ادا نہیں کیا تھا۔ انھو ں کا کہنا تھا کہ پنجا ب میں مسلم لیگ ن کی ادارو ں سے بات ہوئی ہے اور آئندہ 2ما ہ پنجا ب حکومت کے بارے میں اہم ہیں۔ توقع ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت پنجاب میں بن جائے گی مگر نہ تو انھو ں نے اداروں کی نشاند ہی کی اور نہ اس بارے میں کوئی تفصیل بیان کی ۔
سودے بازی کی سیاست پاکستان میں قدیم روایات میں سے ہے ، اس بناء پر کہا جا تا ہے کہ عوام شراکت داری اقتدار میں مایوسی کا شکا ر محسو س کئے جا تے ہیں ۔ اگر رانا مشہو د کی بات کو سچ مان لیا جا ئے تو میا ں صاحب عوام سے کیے وعد ے سے بغاوت کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کی ڈیل کا وقت سے پہلے ہی منکشف ہوجا نا خود مسلم لیگ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ رانا مشہو د جو ذمہ دارانہ عوامی عہد ے پر فائز رہ چکے ہیں، ان سے ایسی غیر ذمہ دارانہ بات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی جس کی وضاحت انھی کو کر نا ہے ۔
جہا ں تک اپو زیشن کے کر دار کا تعلق ہے تو پاکستان کی سیا ست میں یہ سیا ہ پہلو نما یا ں ہے کہ حزب اختلاف جس کی بنیا دی ذمہ داری یہ ہو تی ہے کہ ملک اور عوام کے مفاد کی حفاظت کرے یعنی وہ ایک احتسابی قوت کا کردار ادا کرے اور حکومت وقت کو صرف اپنے مفادات کے لیے قدم اٹھانے سے باز رکھے مگر بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان میں مجموعی طور پر حزب اختلاف کا کر دار مخالفت برائے مخالفت ہی رہا اور حکومت کو مفلو ج کر نے میں اپنی توانا ئیاں صرف کی گئیں۔ حکومتو ں کو گرانے میں کر دار کیا جیسا کہ             2013  کے انتخابات کے فوری بعد تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے خلا ف دھر نا تحریک چلا ئی اور اسٹریٹ پاور کی ہلہ گلہ مچائی رکھی۔ عمر ان خان نے سابقہ سار ا دور سڑکو ں پر احتجا ج کر نے میں گزار دیا۔ اگر وہ اس کی بجائے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کر تے تو ان کی سیاست کے مثبت نتائج برآمد ہوتے چنا نچہ انھوں نے کشید ہ احتجا جی سیا ست کی تو آج بھی ویسی ہی کشید گی سیا ست میں نظر آرہی ہے۔
رانا مشہو د کو معلوم رہنا چاہیے کہ حزب اختلا ف کاکر دار حکومت کو ناکام بنا نا یا گرا نا نہیں ہو ا کرتا ۔بے نظیر کے پہلے دور میں بھی یہ الزام لگایا گیا تھا کہ حزب اختلاف نے اسٹیبلشمنٹ سے مل کر بے نظیر کی حکومت کو گرانے کی سعی نا کام کی تھی  حالانکہ یہ بات پوری طر ح اب تک ثابت نہ ہو سکی مگر اس الزام میں 2 افسرو ں بریگیڈیئر امتیا ز اور  دوسرے ذہین افسر میجر عامر کو ملا زمت سے فارغ کر دیا گیا جبکہ یہ دونو ں اپنے ادارو ں کا بہترین اثاثہ تھے ۔ اسی طر ح پی ٹی آئی کی دھر نا تحریک سے پہلے کچھ ایسی خبریں آئیں جن کو لند ن پلا ن کا نا م دیا گیا تھا ۔ اس لند ن پلا ن سے پہلے بھی بھٹو  کے دور میں ایک لندن پلا ن کی خبر اس دور کی حکومت کی جانب سے خوب اچھالی گئی تھی مگر وہ فراڈ خبرنکلی تھی لیکن دھر نا تحریک سے پہلے جس لند ن پلا ن کا ذکر کھلا، اس میںکہا گیا تھاکہ لند ن میں پاکستان سے بلا کر چوہدری شجا عت اور کینیڈا سے طاہر القادری کو بلا کر عمر ان خان سے ملا قات کر ائی گئی جس میں طے پایا کہ نو از شریف کی حکومت کو گرانے کے لیے تحریک چلائی جائے گی اور کسی امپائر کی بھر پور معاونت بھی میسر ہو گی ۔لند ن کی اس ملا قات کے بارے میں عمر ان خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے متعد د بار تردید کی بلکہ اس لندن پلا ن میں شریک ہر لیڈر نے انکا ر کیا مگر گزشتہ دنو ں طاہر القادری کی عوامی تحریک کے مرکزی لیڈر  علی نو از گنڈا پور جن کو طاہر القادری کا دائیں بازوقرار دیا جا تا ہے،اس لند ن پلان کی تصدیق بھی کی اور بتایا کہ دھرنا تحریک اسی لند ن پلان کا حصہ تھی ۔علا وہ ازیں انھو ں نے کئی دوسرے انکشافات کئے ہیں جس پر پوری قوم ششدر رہ گئی ۔ اس بارے میں جن کو لند ن پلان کا حصہ بیان کیا گیا ہے ان کی طرف سے کوئی تردید نہیں آئی جس سے معاملہ مزید گہر ا ہو گیا ہے۔ یہا ں یہ بات یا د رکھنے کی ہے کہ کہا تو یہی جا تا ہے کہ طاہر القادری نے تحریک  ما ڈل ٹاؤن سانحہ میں ملو ث عنا صر کے خلا ف چلائی تھی اور وہ اس میں شہباز شریف اور حکمر ان جما عت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو ہی ملو ث قرار دیتے رہے ہیں۔ لند ن پلان کے اجلاس کا انعقاد ماڈل ٹاؤن واقعہ سے کئی ماہ پہلے ہوا تھا یعنی نواز شریف کی حکومت کے خلا ف تحریک کا فیصلہ اس سے پہلے کرلیا گیا تھا ۔
اس سے بھی حیر ان کن بات یہ ہے کہ عمر ان خان اور چوہدری شجا عت کے مابین انتہائی اختلا فات تھے اورنفرت پائی جا تی تھی کیونکہ عمر ان خان یہ سمجھتے تھے کہ مشرف کے دور میں چوہدری شجا عت نے ان کے وزیر اعظم بننے کی رکا وٹ ڈالی وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوار نہیں کر تے تھے پھر وہ ایک میز پر کیسے آگئے یہ بھی تحقیق طلب بات ہے کہ وہ کونسی قوت تھی جس نے تینو ں کو یکجا کردیا کیونکہ طاہر القادری اور عمران میں کوئی نظریا تی ہم آہنگی اب پائی جا تی ہے اور نہ اُس وقت پائی جاتی تھی پھر لند ن میں ان سب کو کس نے جمع کر دیا گنڈاپور ہی اس پر روشنی ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر اس پلان کی حقیقت کے لیے ایک جے آئی ٹی بن جائے تو بہت بہتر رہے گا ۔
          
 
 
 

شیئر: