Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی بیاہ کے موقع پر ذات برادری کی تلاش

 شریعت نے شادی بیاہ کے موقع پر آپس میں مماثلت، یگانگت، برابری اور قابلیت کا اعتبار کیا ہے
 * * *مفتی محمد فیاض قاسمی۔ سمستی پور،ہند * * *
    انسانی تنوع وطبقاتی تقسیم کے باوجود اسلام نے تمام بنی نوع انسان کو ایک اور برابر گردانا ہے اورآدمی آدمی کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا بلکہ بحیثیت انسان ہر ایک کو برابر عزت وشرف سے نوازا ہے۔ اسلامی نقطئہ نظر سے محض رنگ ونسل اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر کسی انسان کو اعلیٰ اور گھٹیا سمجھنا گوارہ نہیں کیا جاسکتا۔
    وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ ’’یقینا ہم نے اولادِ آدم کوبڑی عزت دی( الاسراء70) ،نیز اسلام کی نظر میں سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں: اِنَّمَا الْمُومِنُوْنَ اِخْوَۃٌ ’’(یاد رکھو)سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘(الحجرات10) لہٰذا یہ اخوتِ باہمی اس بات کی متقاضی ہے کہ کسی کو ذات برادری کی بنیاد پر حقیر سمجھ کر اور نسب ونسل اور زبان پر تفاخر کر کے صحن اخوت میں اونچ نیچ کی دیوار حائل نہ کی جائے۔
    لیکن زندگی کے ہر شعبے میں کیا آج کا مسلمان اخوتِ باہمی کے اس زریں اور اسلامی اصول پر کار بند رہتا ہے یا اس کے قدم ڈگمگاتے اور پاؤ ں پھسل جاتے ہیں، تو مشاہدہ یہ ہے کہ بعض مواقع ایسے ہوا کرتے ہیں جہاں دھڑلے سے اس اصول کی پامالی ہوتی ہے۔ ان میں ایک موقع شادی بیاہ کا ہوتا ہے کہ ایسے وقت میں اچھے اچھے لوگ بھی ’’انما المومنون اخوہ‘‘ کے پیغام کو بھلا دیتے ہیں اور صرف اپنے ہی نسب ونسل اور برادری کو فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
     آخر ایسا کیوں؟کیا وہ رواج کے تابع ہو کر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی شان وشوکت اور فخر و غرور اور کبر ونخوت کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ وجوہ ان کے خیالات کی محرک ہوسکتی ہیں۔
    بعض برادریاں تو واقعتاایسی ہوتی ہیں کہ بلاوجہ اپنی دولت وثروت کو شان وشوکت اور عزت وشرف کا ذریعہ سمجھ کر فخر وغرور کی زد میں آجاتی ہیں۔ ان کی یہ سوچ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے۔ اسلام نے کسی بھی صورت میں اِس بات کو قبول نہیں کیا کہ کوئی اپنے کو باعزت اور دوسروں کو ذلیل وحقیر اور گھٹیا سمجھے۔دوسرے یہ کہ شریعت میں ان کے نظریہ کی تا ئید ہو رہی ہو اسی لیے وہ اس پر مضبوطی سے کا ربند رہتے ہیں۔
    ہاں، شریعت نے شادی بیاہ کے موقع پر آپس میں مماثلت، یگانگت، برابری اور کفاء ۃ(قابلیت) کا اعتبار کیا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان فکر وخیال، معاشرت، طرز رہائش اور دینداری وغیرہ میں یکسانیت یا قربت ہونے کی صورت میں اس کی زیادہ امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتۂ نکاح مستحکم ہو۔ بے جوڑ نکاح عموما ًناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کے برے اثرات ان دونوں شخصوں سے متجاوز ہو کر دونوں کے گھروں اور خاندانوں تک پہنچتے ہیںاس لیے احکام ِنکاح میں شریعت نے کفاء ۃ کی رعایت کی ہے۔
    احناف کے نزدیک نکاح میںکفاء ۃ کا اعتبار نسب، نسل، اسلام، آزادی، مال ودولت، دیانت اور پیشہ میں ہے (فتاویٰ عالمگیری ) ،یعنی زوجین کے درمیان ذات برادری، دینداری، مالداری، آزادی اور پیشہ وغیرہ میں یکسانیت ہونی چاہیے تاکہ نکاح کا مقصد پورا ہوسکے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لَا تَنْکِحُوْ النِسَائَ اِلاَّ مِنَ الْاَکَفَائِ‘‘گویا ذات برادری میں بھی برابری کا اعتبار شریعت نے کیا ہے۔
    علامہ کاسانی نے اپنی بدائع میں اس کے ثبوت اور معتبر ہونے میں ایک تفصیلی حدیث پیش کرتے ہو ئے اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:
    ’’چونکہ تفاخر اور عار دونو ں چیزیں نسب کی وجہ سے ہی وجود میں آتی ہیں اور نسب کا گھٹیا ہونا نقص اور عیب و شرم کا باعث ہوا کرتا ہے اس لیے نسب میں بھی کفاء ۃ کا اعتبار کیا گیا ہے۔‘‘(بدائع الصنائع)۔
    یہ اور بات ہے کہ مذکورہ حدیث یا اس طرح کی اور حدیثوں کو علما ء نے عرب میں کفائت فی النسب کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ عجمیوں نے اپنا نسب ضائع کر دیا ہے اس لیے کفاء ۃ فی النسب کا اعتبار ان میں نہیں ہوگا، عجمی سب کے سب برابر ہیں، ان میں ذات برادری کو ئی چیز نہیں۔ بعض فقہاء نے اس طور پر استثنا کیا ہے کہ اگر کوئی عجمی واقعتا ثابت النسب ہو اور انھوں نے اپنا نسب برقرار رکھا ہو تو پھر ان میں بھی کفاء ۃ فی النسب کا اعتبار ہوگا(درمختارمع الشامی باب الکفاء ۃ)۔
    تاہم عرف وعادات پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ عجمیوں میں بھی بحیثیت عرف کفاء ۃ فی النسب کے معتبر ہونے میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیے۔
     زندگی کے بہت سے ایسے مسا ئل ہیں جن میں عرف پر عمل ہوا کرتا ہے۔ جس ملک، جس ریاست اور علاقہ و بستی کا جیسا عرف ہوتا ہے مسلمانوں کو درپیش بعض مسائل میں وہاں کے عرف کا سہارا لیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ عرف شریعت کی نص یا مقصد ومصلحتِ معتبرہ سے نہ ٹکرائے، ورنہ فاسد قرار پائے گا جیسے مروجہ جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ کرنا، لڑکیوں کو میراث سے محروم رکھنا، گروی زمین وغیرہ سے فائدہ اٹھانا۔ ایسے رواج کا اعتبار نہیں، یہ فاسد کہلائیں گے۔
مزید پڑھیں:- - - - - -میت پر نوحہ خوانی ، ملت سے خارج کرنے والا عمل

 

شیئر: