Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھوکر :عورت پر یہ ظلم کس لئے

خواتین نے  اس شخص کو بہت پیٹا۔۔۔۔۔درد کیا ہوتا اس کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی۔۔۔۔!!!ہر ضرب پروہ شخص کرب سے چلا رہا تھا
ناہید طاہر۔ ریاض
 قسط23 
  paradise       SR  میں رونقیں چھاگئیں۔"ہم ساتھ ساتھ۔۔۔۔پا نچ ہیں" وہ گنگنا کر رضا کا خون جلاتی ،رضا کی ساری آزادیاں ختم ہوچکی تھیں۔۔۔۔ زندگی محبوس میں تبدیل ہو گئی۔۔۔۔۔رضا پر جھنجھلاہٹ سوار رہنے لگی۔۔۔۔ثانیہ نے کوئی پروا  نہیں کی وہ بس اپنے کام میں مصروف رہتی۔۔۔۔۔یتیم خانہ کی  بنیاد رکھی گئی تھی جس کا نام " تحفظ اطفال  " رکھا گیا۔ بے سہارا بچیاں تنظیم سے مستفید ہونے لگیں۔۔۔۔بچوں کی ہر ضروریات پوری کی جانے لگی اور پڑھائی کے عمدہ  انتظامات کئے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ سارا دن ان بچوں کے درمیان رہ کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور ان کے لئے ترقی کے راستے ہموار کرنے کی کوشش میں لگی رہتی۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے بے سہارا خواتین کے لئے "تحفظ نساء" ایک ادارہ کی بنیاد رکھی جہاں مجبور خواتین کی مدد کی جاتی اور ان پڑھ خواتین کو تعلیم کی روشنی سے ہمکنار کیا جانے لگا ، جہیز کی وبا ء میں گھری مجبور لڑکیوں کی شادی کا معقول انتظام بھی کیا گیا۔۔۔۔۔ادار ے کے اصول کے مطابق تین ماہ قبل  فائل درج کروانی ہوتی۔۔۔تمام جانکاری کے بعد لڑکی کے والدین کو ادارے کی جانب سے معقول امداد دستیاب کی جاتی۔بہت جلد وہ خواتین  اور بے کسوں میں مشہور ہوگئی۔۔۔۔۔۔اخبارات کی سرخیوں میں اسکا نام جگمگا اٹھا۔
رضا حیران تھا اتنی سادگی آج تک اس نے کسی لڑکی میں نہیں دیکھی تھی۔پرنور  چہرے کے اطراف اسکارف باندھے اپنے کام میں مشغول۔۔۔۔۔۔اتنی محنتی کہ  جب تھک کر گھر لوٹتی تو خود کو چاق وچوبند ثابت کرنے کی کوشش میں  باتوں کے درمیان ہی اونگھنے لگتی  تب حمیدہ بیگم بڑے پیار سے اس کو  سونے کیلئے کہتیں۔ثانیہ آخر تم کس مٹی سے بنائی گئی ہو۔۔۔۔۔؟رضا سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
ڈوبتے سورج کی کرنوں تلے گھر کے سبھی افراد شام کی چائے کا لطف اٹھا رہے تھے۔۔۔۔۔بارش کے آثار نمایاں تھے۔جس کی وجہ سے فضاء کافی ابرآلود  ہوگئی تھی نرم ہوائیں چل رہی تھیں۔لان  کے پودوں پرشباب سا نظر آرہاتھا۔خوبصورت پھول دھیرے دھیرے خمار سے جھومتے دکھائی دے رہے تھے۔دادو پودوں کا جائزہ لیتے ہوئے  انہیں پانی ڈال رہے تھے۔۔۔۔۔کئی  رنگ کے گلاب توڑ کر  اکٹھا کرتے ہوئے لان میں آراستہ  بید کے خوبصورت جھولے کے قریب آئے جہاں ان کا لاڈلا براجمان چائے کی چسکیاں بھرتا  ہوا موبائل میں کھویا ہوا تھا۔
برخوردار کبھی تو اپنے چشم بد نصیب کو آرام بخشا کرو۔۔۔۔ آجکل کی نسل جنونی انداز میں انٹر نیٹ کے عشق میں مبتلا ہے۔۔۔۔کسی سے بات کر نے کا وقت نہیں۔۔۔۔۔۔ہر وقت موبائل۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
دادو پلیز۔۔۔۔۔۔۔رضا نے ایک لمحے کے لئے موبائل سے نظریں اٹھا ئیں۔وہ گیم     پب جی کھیلنے میں مصروف تھا۔
خوشگوار گفتگو کے ساتھ شام کی چائے کا جو لطف ہوتا ہے وہ تمہارے اس موبائل کی دنیا میں کہاں۔۔۔۔؟موبائل آنکھوں سے لگائے نہ چائے کا صحیح لطف اٹھا سکتے ہو اور ناہی موسم کی خوشگواری کا احساس کرسکتے ہو۔۔۔۔۔۔!!!
امی ایک اور چائے بنا دیجئے۔۔۔۔دادو  سے گفتگو کے ساتھ پی لوں گا۔
برخوردار چائے        بسکٹ کے ساتھ پیتے ہیں۔
دادو پلیز۔۔۔۔۔۔رضا کھل کر ہنس پڑا۔
ثانیہ کے لئے تازہ گلاب توڑا ہے۔۔۔۔۔۔!
اپنے ہاتھوں سے استانی کو دینا۔۔۔۔۔بے چاری کی تھکان دور ہوجائیگی۔۔۔!
دادو آپ بھی نا۔۔۔۔!!! رضا پھولوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ثانیہ ان تازہ پھولوں کی شیدائی تھی۔۔۔۔ہر روز دادو اس کے لئے پھول توڑکر رضا کو تھما دیتے جسے بہت کوفت آمیز احساس تلے وہ ثانیہ تک پہنچا دیتا۔
ثانیہ کو  آجانا چاہیے تھا۔۔۔پتہ نہیں کیوں دیر ہوگئی۔۔۔حمیدہ بیگم دادا پوتے کو چائے کی پیالی تھماتی ہوئی کافی فکریہ انداز میں بولیں۔
میں فون کرتا ہوں۔۔۔۔شوکت صاحب فوراً کال کرنے لگے۔
اس نے فون کاٹ دیا۔۔۔۔۔شوکت صاحب فکر سے بولے تب ہی سامنے سے ثانیہ خوبصورت سراپے کے ساتھ لان کی جانب  قدم بڑھاتی نظر آئی۔
لیجئے ابلیس کا نام لیا اور۔۔۔۔۔۔۔!رضا دبے لب تمسخر سے ہنسا۔۔
رضا۔۔۔۔۔۔!!! دادو اور حمیدہ بیگم  غرّائے۔
ثانیہ کافی پریشان  لگ رہی تھی ،چہرے پر کافی سنجیدگی طاری تھی۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔۔!
وعلیکم السلام !!!
کہاں سے آرہی ہو۔۔۔۔؟حمیدہ بیگم نے پوچھا ۔۔
"تحفظ نساء  "سے۔۔۔۔۔! 
کوئی پریشانی۔۔۔۔؟؟؟
ہاں  امی ایک کیس نے کافی الجھادیا۔
کسی مدد کی ضرورت ہو تو بتانا۔۔۔! شوکت احمد نے بے چینی سے پہلو بدل کر کہا۔۔۔۔۔
ثانیہ  رضا کو دیکھنے لگی۔۔۔۔وہ اپنی ہی دھن میں موبائل میں مصروف تھا۔۔
"پتہ نہیں کس مٹی سے بنا ہے۔۔۔بے حسی کی کوئی تو انتہا ہوگی۔۔۔۔"دل پر ٹھیس اٹھی۔
چائے پیوگی۔۔۔۔؟ حمیدہ بیگم بہو کو پیار سے نہارتی ہوئی پوچھ رہی تھیں۔۔۔
ہاں۔۔۔!
اب بتائو کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔ ؟ کافی تشویشناک لہجے میں پوچھتی ہوئی چائے کی پیالی ثانیہ کے ہاتھ میں تھمادی۔
ایک 17سالہ لڑکی بہت زخمی حالت میں آفس لائی گئی تھی۔۔۔۔۔اس کا شوہر شراب کے نشے میں اس لڑکی کو بری طرح پیٹاہے۔ جسم پرسگریٹ سے کئی جگہ جلایا بھی ہے۔۔۔۔عورت پر یہ ظلم کس لئے۔۔۔۔؟؟؟  آخر کب تک۔۔۔۔؟؟؟اس کی آواز میں بے پناہ کرب عود آیا۔
میں اس لڑکی کو اسپتال لیکر گئی تھی۔۔۔۔۔وہ حاملہ ہے افسوس اس کا  حمل بھی ساقط ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔  ثانیہ کی آنکھیں  تیزی سے بھیگنے  لگیں۔
دوسروں کے غم کو اپنے سینے میں محسوس کرنے والی اس بکھر ی لڑکی کو دادو دیکھتے رہے۔۔۔انھیں اپنے دوست محترم کی رگوں میں جوہمدردی ،خلوص ،رحم دلی کے  روشن جذبے   پنہاں تھے ان کی  شعاعیں   اگلی نسل پر پھیلی صاف نظر آرہی تھیں۔ انھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقولہ یاد آیا
"نکاح کے لئے صالح خاندانوں کا انتخاب کرو،اس لئے کہ نسلوں کی خفیہ تاثیر ہوتی ہے"
دادو کو اس لڑکی پر فخر محسوس ہوا۔
تم نے اس کے شوہر سے کوئی بات کی۔۔۔۔؟ حمیدہ بیگم غصے سے سرخ ہوگئیں۔۔ 
ہاں تنظیم کے کارکن اس شخص کو آفس کھینچ لائے۔۔۔۔۔اچانک ثانیہ کا چہرہ  چمک اٹھا۔
"خواتین نے  اس شخص کو بہت پیٹا۔۔۔۔۔درد کیا ہوتا اس کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی۔۔۔۔!!!
ہر ضرب پروہ شخص کرب سے چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔۔ سِگریٹ کے چْرکوں پر ہماری ایک کارکن کے پاؤں پر سر رکھ کر گڑگڑانے لگا۔۔۔۔معافی مانگنے لگا ،درد کیا ہوتا۔۔۔؟تکلیف کس کو کہتے ہیں۔۔۔۔؟اس کی کرب ناک چیخوں سے پتہ چل رہا تھا۔
ارے واہ۔۔۔۔۔۔۔دادو  نے بے اختیار کرسی پر ہاتھ مار کر زور سے قہقہہ لگایا۔۔۔جیو میری شیرنی۔۔۔۔۔!!!
سب خوشی سے ہنس پڑے۔۔۔رضا وہاں سے اٹھ گیا۔۔
ثانیہ نے کنکھیوں  سے اس کو جاتے ہوئے دیکھتی ہوئی نظریں پھیرلی۔
تم دیکھنا وہ بندہ دوبارہ کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھائیگا۔۔۔۔دادو بڑے جوش سے کہہ رہے تھے۔
ہاں اتنا تو سبق مل ہی چکا۔وہ تھک چکی تھی۔ہنگامہ خیز دن کی مشقت  سے یا پھر رضا کی بے اعتنائی سے۔۔۔۔۔۔!
کچھ دیر آرام کرلو۔۔۔۔حمیدہ بیگم کے کہنے پر وہ وہاں سے اٹھ گئی۔ثانیہ یہ پھول ہیں۔۔۔۔لیتی جانا۔۔۔دادو نے پیچھے سے آواز لگائی تو وہ گھومی تازہ پھولوں پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پر خوشی کی چادر لہراگئی ۔۔۔۔دادو نے ثانیہ کی ان چھوٹی خوشیوں کی خاطر لان گلابوں سے  بھر دیاتھا
( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: