Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھوکر : خواب اکثرٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں

رضا کی نظریں اس چہرے کے سحر میں  ڈوبنے لگیں۔ یار یہ لڑکی ہے یا کوئی آفت کی پرکالہ۔۔۔۔۔!ہمیشہ اپنے کھاتے میں  پلس پوائنٹ ہی جمع کرواتی ہے
ناہیدطاہر ۔ ریاض
قسط 22
وہ پتہ نہیں کتنی دیر سوتی رہی اچانک کسی گرم احساس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔دیکھا تورضا اسپر گرم لحاف پھیلا رہاتھا۔وہ گہری نیند میں شاید اے۔سی کی ٹھنڈک برداشت نہیں کرپارہی تھی اور ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔
شکریہ۔۔۔۔!
کیاعصرکی نماز کا وقت ہوگیا۔۔۔۔؟ اس نے  نیند سے بوجھل آنکھیں لیے فکریہ انداز میں پوچھا۔  بوجھل  آنکھوں میں نمازکی فکر نمایاں تھی۔ رضا کواس نیک لڑکی پر بے اختیار پیارآیا۔۔ 
ابھی وقت باقی ہے۔۔۔۔۔تم نماز پڑھ کرباہر لان میں آجا ئو۔دادو ہمارا انتظار کررہے ہیں۔رضا نے بہت نرم لہجہ میں جواب دیا۔۔۔
جی بہتر۔۔۔۔۔! وہ اپنی سیاہ زلفوں کو خوبصورت چہرے سے ہٹاتی ہوئی بڑی معصومیت سے رضا کو دیکھنے لگی۔اس قدر ملائم لہجہ۔۔۔! اس نے تعجب  سے سوچا۔
نماز  کے بعد ثانیہ نے امی  ابو کو فون کیا، اپنی خیریت بتائی اور انتظار کر نے سے منع کیا۔
پھر لان کا رخ کیا۔۔۔۔۔خادمہ شام کی چائے کے ساتھ کچھ لوازمات سجائے ٹرالی لے آئی تھی۔
ثانیہ  چائے بنانے لگی۔
دادو آپکو پتہ ہے کل ثانیہ نے استعفیٰ  دے  دیا ہے۔رضا  نے بے موقع ذکر چھیڑا تو ثانیہ تیز نگاہوں سے رضا کو دیکھنے لگی۔بات تبدیل کرتی ہوئی چائے کی پیالی دادو کو تھماکر خوشگوار انداز میں گویا ہوئی۔۔
دادو ڈوبتا سورج کس قدر نرم و ملائم اور شفیق نظر آتا ہے ناں۔۔۔۔۔!!!وہ ہمیشہ سے شفق کی لالی اور ڈو بتے سورج کی سنہری کرنوں کی دیوانی  تھی۔خوبصورت لان پر اس لالی کی چادر نے بڑا پیارا  سما ںباندھ رکھا تھا۔
دادو ،ثانیہ تمہید باندھنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ یہاں اس کی ضرورت ہی نہیں۔رضانے  دوبارہ ثانیہ کو اہم  مدعا پر کھینچ  لانے کی کوشش کی۔
جواب میں  ثانیہ نے غصے سے اس کو دیکھا۔ دل شدت سے آرزو کر نے لگا کہ اس شخص کا گلہ گھونٹ  دے۔
کیا بات ہے ثانیہ۔۔۔۔۔؟دادو نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے فکریہ انداز میں ثانیہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ثانیہ کا چہرہ زرد مائل ہونے لگا۔
خیریت۔۔۔۔؟دادو بے چین ہوگئے۔
دادو دراصل ثانیہ۔۔۔۔۔!!!!
آپ خاموش رہیں۔۔۔۔۔دادو کے آگے میں اپنی بات رکھ سکتی ہوں۔۔۔!!!وہ درمیان سے رضا کی بات کاٹ کر دبی سی آواز میں چیخی۔رضا لطف اندوز ہو تا ہوا۔۔کرسی پر پھیل گیا اور چائے کی چسکیاں لینے لگا۔
تم نے استعفیٰ کیوں دیا۔۔۔۔؟دادو پوچھ رہے تھے۔
اس بات کی اطلاع مجھے پرنسپل عارف حْسین صاحب نے  دی۔
کیا میں اس کی وجہ جان سکتا ہوں۔۔۔۔؟
اور یہ رضا کیا کہہ رہا۔۔۔۔۔؟ایسی کونسی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ؟
وہ دادو کا اضطراب  محسوس کرتی ہوئی بے چین ہوگئی۔اس کے جسم میں  لرزہ  ساطاری ہونے لگا۔
دادو دراصل میں ٹیچنگ سے اکتا چکی۔۔۔۔۔"وہ حالات کو دادو کے آگے عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ 
"ٹیچنگ تو محترمہ کا دیرینہ خواب تھا۔۔۔۔ اس نے  ثانیہ سے ملاقات کا پہلا دن یاد کیا اور بھرپور تمسخر سے ہنس دیا۔اس کا تمسخر ثانیہ کے وجود کو جھنجھوڑرہا تھا۔
خواب اکثرٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔میرے خواب کانچ کے تھے جو کسی پتھر سے ٹکرا کر کرچی ہوئے اوربکھر گئے۔۔۔"
یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔دادو پہلو بدلتے ہوئے ثانیہ کو فکریہ انداز میں بغور دیکھنے لگے
دادو۔۔۔۔۔۔میں نے ایک فیصلہ کیا۔۔۔۔۔۔وہ غصے سے سرخ ہوتی ہوئی رضا کو خار بھری نظروں سے گھوری، اس کا خوبصورت چہرہ شفق کی سنہری کرنوں میں سونے کی طرح چمکتا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔رضا کی نظریں اس چہرے کے سحر میں  ڈوبنے لگیں۔ 
دادو میں اور رضا ایک ساتھ۔۔۔۔نہیں رہ سکتے۔۔۔۔!!!
کیا مطلب۔۔۔۔؟دادو چونک گئے اور رضا محظوظ ہوتا ہوااپنی مسکان چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہوا چہرے پر بے بسی کے تاثرات لانے کی کوشش کرنے لگا۔
دادوآپ اسقدر پریشان کیوں۔۔۔؟؟؟
وہاں دیکھئے رضا کے چہرے پر تو قوسِ قزح چھائی ہوئی ہے۔
شٹ اپ۔۔۔۔۔۔!رضا اپنی انگلیوں کو بندوق کی شکل دیتاجیسے اسپر فائر کیا۔
استانی تم کیسی باتیں کررہی ہو۔۔۔۔۔؟
دادو  ہمیں  اتنے بڑے گھر میں تنہا رہتے ڈر لگے گا۔۔۔ہم دونوںکی یہ خواہش ہے آپ،ممی اور ابو مستقل یہی شفٹ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ہم ساتھ رہیں گے۔
ہے ناں رضا۔۔۔۔۔؟ وہ اپنی تمام ترشوخی سے رضا کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی اس کی بے بسی پر اندر ہی اندر محظوظ ہو اٹھی۔سچ کتنا اچھا لگے گا۔۔! ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں۔۔۔۔۔!  وہ دوبارہ چہکی۔۔ 
رضا  حیرتوں کے سمندر میں غوطہ لگاتاہوا اس کو گھورتا رہا آنکھیں ہونقوں کی مانند پھیل گئیں۔وہ سوچ رہا تھا کہ آج ثانیہ دادو سے اس رشتے سے ہمیشہ کے لئے علیحدگی کی بات کریگی۔۔۔۔لیکن یہ تو رشتوں کو زرخیزی عطاء کیے جارہی تھی۔
ثانیہ میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔وہ بدبدایا۔
دادو یہ بنگلہ بہت بڑا ہے۔۔۔۔اتنا بڑا کہ ہم صرف اس کا ایک حصہ گھوم کر تھک گئے۔۔۔۔۔۔بھلا ہم پانچ افراد کے لئے اتنے بڑے گھر کی کیا ضرورت۔۔۔۔کہیں ہم اس میں کھو ناجائیں۔
دادو نے  پرلطف انداز میں قہقہہ لگا یا ۔۔
میں اور رضا چاہتے ہیں کہ اس کاایک پورشن یتیم خانہ کے لئے وقف کردیں تاکہ بے سہارا بچوں کی نگہداشت ہو اور یہ عمل ہم سب کے لئے ثواب جاریہ ثابت ہو۔
بہت خوب۔۔۔!!!دادو نے تعریفی نظروں سے ثانیہ کو دیکھتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
کیا سوچا تھا اور کیا ہورہا ہے۔۔۔محترمہ تو مستقبل کی منصوبہ بندی کیے جارہی ہیں اور دادو توصیفی نظروں سے اس کو نہار رہے ہیں۔رضا کا سر چکرا نے لگا۔۔
یار یہ لڑکی ہے یا کوئی آفت کی پرکالہ۔۔۔۔۔!ہمیشہ اپنے کھاتے میں  پلس پوائنٹ ہی جمع کرواتی ہے۔۔
واہ واہ واہ۔۔قابل تحسین، عمدہ خیال۔ہم اسے کل ہی عملی جامہ پہنائیں گے۔۔۔۔۔!!!یہ بنگلہ صرف فیملی کے لئے   وقف ہے ہاں یتیم خانے کے لئے ایک اور عمارت تلاش کرلی جائیگی،تاکہ استانی کی خواہش کا احترام ہو سکے۔۔۔دادو تالی بجاکر گویا تھے اوررضا سر تھام کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثانیہ دبے لب  شوخی سے مسکرادی۔۔۔رضا کو یہ مسکراہٹ زہر آلود لگی۔دل شدت سے آرزو کر رہا تھا کہ اس کی صراحی دار گردن کو  سختی  سے مروڑ دے
( باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: