Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانونی اصلاحات/سقم

***محمد مبشر انوار***
مسلم لیگ ن پر اس وقت بظاہر ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا جب نیب عدالت نے مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر  شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ ا سکینڈل میں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ مسلم لیگی کارکنان کا یہ مؤقف کسی حدتک بجا ہے کہ عدالت کے سامنے معاملہ صاف پانی کا تھا ۔ گرفتاری آشیانہ ہاؤسنگ سکیم پر عمل میں لائی گئی۔ مسلم لیگی کارکنان کے نزدیک یہ فیصلہ نہ صرف متعصبانہ ہے بلکہ ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔ اس ضمن میں مسلم لیگی کارکنان چیئر مین نیب کی وزیراعظم سے ملاقات کو شدید تنقید کا نشنانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں  شہباز شریف کی یہ گرفتاری اس ملاقات کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ،اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا مگر گمان اتنا اچھا نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے کہ مسلم لیگ ن کا رویہ نہ صرف انتہائی سخت ہوتا جا رہا ہے بلکہ ایک طرح سے یکطرفہ ہے کہ اپنے حق میں ہونے والے ایک فیصلے پر وہ عدالتوں کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں تو دوسری طرف فیصلہ خلاف آنے پر وہ انہی عدالتوں کو تلوار کی دھار پر رکھ لیتے ہیں۔ملکی معاملات اس طرح کسی صورت نہیں چل سکتے۔ دوسری طرف بھی کسی حد تک یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ اگر عدالتیں مسلم لیگی قیادت کے خلاف فیصلے دیتی ہے تو تحریک انصاف کے کارکنان دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ اگر فیصلے لیگ کے حق میں ہوں تو معزز ججز کے خلاف زمین آسمان ایک کر دی جاتی ہے۔ایسے ایسے حوالے ،رشتے اور رابطے سننے کو ملتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر دو صورتوں میں فیصلوں اور ججز کا احترام کیا جائے اور قانونی جنگ ،قانونی طریقے سے لڑی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں بلکہ اشرافیہ نے اس قوم کو ایسے ایسے گھن چکر دئیے ہیں کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا ۔ شخصیت پرستی کے مارے ا ن کے پیروکار آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ جس مٹی نے،دھرتی نے انہیں پاکستانی بنایا ہے،اس کی انہیں چنداں کوئی پروا ہی نہیں بلکہ وہ اس حد تک جانے کو تیار ہیں کہ اگر ان کا لیڈر اقتدار میں نہیں تو خدانخواستہ پاکستان کا وجود بھی قائم نہیں رہ سکتا ۔ کسی عوامی رہنما  سے  متعلق اس قدر انتہا پسندی و مقبولیت کم ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں یا دوسری صورت میں ،بصد احترام، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایسے پیروکاروں کو ماسوائے ذہنی غلام اور کچھ نہیں کہا جا سکتا،جو مادر وطن سے بڑھ کر کسی انسان سے محبت کریں یا مادر وطن کی قیمت پر کسی ایک شخصیت کو فوقیت دیں۔پاکستانی سیاست کی پچھلی چند دہائیوں پر نظر دوڑائیں تو واضح نظر آتا ہے کہ ہماری مقننہ میں بیٹھی ہوئی اکثرشخصیات کسی بھی طور قانون سازی کی ابجد سے بھی واقف نہیںجبکہ وہ اراکین جو قانون سازی اور اس کی اہمیت سے واقف ہیں،انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ایسی شخصیات جو پارلیمان کی اہمیت و افاد یت و کردار سے واقف ہیں، وہ بھی پارٹی قائد یا پھر ان کے کاسہ لیسوں کے ہاتھوں بری طرح یرغمال ہیں اور وہی کچھ کرنے پر مجبور ہیں،جس کی انہیں ہدایات دی جاتی ہیں۔دنیا بھر میں پارلیمانی نظام یا کسی بھی نظام حکومت میںفلاح و بہبود کے قوانین ہمیشہ غریب اور پسے ہوئے عوام کے لئے بنائے جاتے ہیں۔طبقاتی نظام کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہیں۔موجود قوانین میں بہتری لائی جاتی ہے تا کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جائے مگر پاکستانی پارلیمان ایسی انوکھی پارلیمان ثابت ہو رہی ہے کہ وہ عدالتوں سے سزایافتہ مجرموں کے حق میں قانون سازی کرتی نظر آتی ہے۔ یہ کیسی پارلیمان ہے جوذاتی مفادات کی خاطر اپنے ہی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،بجائے اس کے کہ اپنے اداروں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں مستحکم کیا جائے(جوان کی بنیادی ذمہ داری ہے)اور تمام قانونی جنگ ،قانونی طریقے سے لڑی جائے۔ یہاں اس کے برعکس ہور ہا ہے ۔
بارہا یہ لکھا ہے کہ اگر کل تک عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت یا ٹیلی فونک ہدایات پر فیصلے دیتی رہی ہے ،جو سراسر غلط تھا،مگر آج کے فیصلوں کو حقائق اور معروضی حالات کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے کہ آیا فیصلے قانونی طور پر ہو رہے ہیں یا نہیں؟ اگر کہیں بھی ،کسی بھی صورت میں تعصب یا نظریہ ضرورت کی جھلک بھی نظر آئے تو اس کی واقعتاً مذمت ہونی چاہئے مگر کسی بھی صورت معزز ججز کی کردار کشی نہیں ہونی چاہئے خواہ چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں یا جسٹس اطہر من اللہ یا نیب جج محمد بشیرکہ چیف جسٹس کے فیصلے بھی قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں میں قانون ہی کی عمل داری نظر آ تی ہے۔یہ الگ بات کہ جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ایک  مرتبہ  بھی ملزمان/مجرمان سے دریافت نہیں کیاکہ جب آپ ان اثاثوں کو تسلیم کر چکے ہیں تو اس کے ثبوت آپ ہی مہیا کر دیں؟تا کہ آپ کو باعزت بری کیا جائے،مسلم لیگی احباب اس فیصلے کو تو تسلیم کرتے ہیں حالانکہ اپیل میں جسٹس اطہر من اللہ نے صرف سزا معطل کی ہے ،ضمانت پر رہائی دی گئی ہے۔الزامات سے بریت ہونا ابھی باقی ہے۔ دوسری طرف نیب کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ اتنے بڑے کیس میں کس طرح بغیر تیاری کے یا ممکنہ ملی بھگت کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیروی کی گئی کہ معزز ججز کے سوالوں کے جواب بھی نہ دے سکے؟کیا اس کارکردگی کی بنیاد پر نیب سے کیسے توقعات کی جا سکتی ہیںکہ وہ واقعتاً ملکی مفادات کا تحفظ کر سکے گی؟ملزمان/مجرمان کو قرار واقعی سزا دلوا سکے گی؟لوٹی ہوئی قومی دولت واپس قومی خزانے میں لا سکے گی؟یا اس قانون کی موجودگی میں قومی مجرمان ایسے ہی رہائی پاتے رہیں گے؟یہی وہ نقطہ ہے کہ جہاں پارلیمان کی اہمیت و افادیت و کارکردگی عیاں ہوتی ہے،اگر قوانین اتنے کمزور ہیں کہ طاقتوراس کو جب چاہیں،مہنگے وکلاء کی مدد سے اس کو توڑ مروڑ کر نکل جائیں ،تو ایسی پارلیمان کا کیا مصرف ہے؟کیا یہ اہلیت کا معاملہ نہیں کہ جس کام کے لئے اس پارلیمان کو چنا جاتا ہے ،یہ اس ایک کام کے لئے بھی معیار پر پورا نہیں اترتی؟کیا پوری کی پوری پارلیمان نا اہل ثابت نہیں ہوتی؟کس طرح اس نظام میں عوامی بہبود ممکن ہے؟کیسے قوانین پر عمل درآمد ممکن ہے؟ریاستی مشینری کا کیا کردار ہے،جیسا اس مقدمے میں نیب کے وکلاء کی کارکردگی سے ظاہر ہے کہ سب ڈرامہ یا ملی بھگت سے ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف کسی متوسط طبقے کے شہری کے لئے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اتنی آسانی سے قانونی پیچیدگیوں سے نپٹ سکے؟قانون تو مظلوم کی دادرسی کے لئے ہوتا ہے،جس کی ضمانت ریاست فراہم کرتی ہے،یہاں معاملہ برعکس ہے کہ اس معاملے میںریاست خود مظلوم ہے ۔ اس طرح کے فیصلے ریاست کو مزید مظلوم کر رہے ہیں۔بنیادی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ مقننہ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ،انہی قوانین میں بہتری لائے۔ریاستی مشینری پر کڑی نظر رکھے تا کہ کوئی بھی ریاستی مفادات کے خلاف نہ جائے۔ریاستی مشینری کے ریاستی مفادات کے خلاف کام کرنے پر کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔صرف سزا کا یہ خوف ہی ریاستی مفادات کے تحفظ پر مائل کر سکے گا،وگرنہ غریب کی جورو سب کی بھابھی کی مانند،جس کو موقع نہیں ملتا وہی ایماندار والی بات ہوگی۔ اس وقت بھی پارلیمان کی حالت یہ ہے کہ نظام کی بنیادی تبدیلیوں کے لئے ،قوانین کی بہتری کے لئے ،قوانین کو مزید سخت کرنے کے لئے مجوزہ قوت سے محروم ہے کہ حکومت و قت جن بیساکھیوںپر کھڑی ہے،ان کے ڈگمگانے پر دھرام سے نیچے گر سکتی ہے۔ ا سٹیٹس کو ،کے نمائندے ابھی بھی پارلیمان اور حکومت میں موجود ہیں،جو صرف ذاتی مفادات کے تحفظ میں اکٹھے ہوتے ہیںاور اسی سٹیٹس کو،کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ ا سٹیٹس کو کے یہ نمائندے کسی بھی صورت قوانین میں بہتری نہیں آنے دیں گے کہ قوانین میں موجود یہی سقم ،پھندوں کوان کے گلوں سے دور رکھ سکتے ہیں،عدالتیں ان سقموں کی موجودگی میں کیا کر سکتی ہیں!!!
 

شیئر: