Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ان کیساتھ میں بھی عذاب میں گرفتار ہو ں“

 افسوس کہ ہم ایسے معا شرے کا حصہ ہیں جہا ں حسن کا معیار گو را رنگ اور عقل کا معیار انگریزی زبان ہے
تسنیم امجد۔ ریا ض
کتابِ ما ضی کا ایک اور ورق آپ کے مطالعے کی نذر ہے ۔یہ زندگی کے وہ حقا ئق ہیںجو ہمارے منفی رو یو ں کی و جہ سے اپنے اندر دکھ سمیٹے ہو ئے ہیں۔کتاب ماضی کی ورق گردانی کا مقصد معا شرتی ا صلاح ہے ۔ہماری زندگی بہتاہوا ایک ایسا د ھا را ہے جو کہیں رک جا تا ہے تو اس کے منفی ا ثرات سے ہم ہی متا ثر ہو تے ہیں۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ:
 ورق ورق پر تری عِبا ر ت 
تیرا افسانہ ،تیری حِکا یت
 کتا بِ ہستی جہا ں سے کھو لی 
تری محبت کا باب نکلا
اعجاز، شادی کے بعد پہلی مر تبہ ہم سے ملا تو اس کے چہرے کی اداسی دیکھ کر ہم چو نک گئے ۔وہ بجھا بجھا سا تھا۔پو چھنے پر گویا ہوا کہ کیا پو چھتے ہو ،بس جی رہا ہو ں ۔گھر جانے کو جی نہیں کرتا ۔شگفتہ کی شکل سے بیزار ہوں۔
ہم نے استفسار کیا کہ تمہاری تو پسند کی شادی تھی ناں، پھر ایسا کیوں؟اس نے کہا ہا ں،اپنی ہی غلطی کی سزا بھگت رہا ہو ں۔در ا صل جب لڑکی دیکھنے کے لئے گئے تو مجھے جسے دیکھنے کو کہا گیا وہ ان کے گھر رو ٹی پکا رہی تھی۔بہت مناسب تھی ۔ان کے والد نے کہا کہ ابھی 
تھو ڑی دیر میں کھا نا لگے گا تو ہم بیٹی کو بلا لیں گے ۔میں نے اپنی انکساری دکھا تے ہو ئے کہا کہ نہیں چاچا ،بس دیکھ لی اور ہماری طرف سے ہاں ہی ہے ۔پھر یوں ہوا کہ شادی والی رات جب میںنے اپنی دلہن کو دیکھا توبے ہو ش ہو تے ہوتے رہ گیا ۔وہ تو کو ئی اور لڑ کی تھی ۔شکل و صورت میں میری سوچ سے بھی زیادہ نا منا سب ۔میرا رویہ خود پر قا بو پا نے کے با وجود نہایت تلخ ہو گیا ۔اسی سے ہی سوال کیا کہ اس دن روٹی کون پکا رہی تھی ؟ اس نے بتایا کہ وہ تو میری سہیلی تھی۔میں کچھ دیر کے لئے کسی کام کے لئے روٹی پکاتے ا ٹھی تھی تو اس نے میری مدد کی غرض سے چند روٹیاں پکا دی تھیں۔
مجھ پر ایسی بجلی گری کہ کچھ سو چنے سمجھنے کی صلا حیت مفقود گئی ۔پھر کیا ہوا۔بس کیا بتا ﺅ ں۔یو ں سمجھئے کہ جب ذمہ داری مقدر ہو گئی تو اسے نبھانا تو ہے۔
شگفتہ نہایت دھیمے مزاج کی ہے۔ اس نے میرے تلخ رو یو ں کو جس طر ح بر دا شت کیا شا ید کو ئی اور نہ کر تالیکن میرا احساسِ تنہائی مجھے کا ٹتا رہتا ہے ۔کیا کروں اب تو اللہ کریم نے ایک بیٹی بھی دے دی ہے ۔اس کی محبت نے پا ﺅ ں میں زنجیر ڈال دی ہے۔
اس کی آ واز میں بہت دردپنہاں تھا ۔وہ گہری سانس لیتے ہوئے بو لا :
 سا نسو ں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے با وجود بھی کچھ لوگ مر گئے
یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا ۔دوسرا رخ شگفتہ تھی ۔اس کا کہنا ہے کہ ہم لڑ کیا ں کس قدر مجبور ہوتی ہیں ،اس کا اندا زہ مجھے اس کیفیت سے گزر نے کے بعد ہوا ۔میں بھی زندہ در گور ہی ہو ں ۔ہرطرح خیال رکھنے اور خدمت کرنے کے باوجود میں اعجاز کو خو شی نہیں دے سکی ۔ کھانا پینا ،گھر داری اور ما ں باپ کی خد مت ،کسی طور بھی پیچھے نہیں رہی لیکن ان سب کا کچھ ا ثر نہیںہوا۔ وہ سسک سسک کر کسی بچے کی طر ح رونے لگی ۔اپنے شوہر کے ابتدائی نفرت کے رویے کو میں کبھی بھول نہیں سکتی۔سو تے میں بھی اگر یاد آ جائے تو ڈر کر ا ٹھ جا تی ہو ں۔کاش وہ اس غلط فہمی سے بچ جا تے ۔ جلد با زی نہ کرتے ۔ان کے ساتھ ساتھ میں بھی ایک عذاب میں گرفتار ہو ں ۔ایسی بے جو ڑ شادیو ں کا کیا فائدہ؟
اس کے چہرے پر بھی اداسی کے سائے منڈلا رہے تھے ۔ہمیں یہ سب جان کر بہت افسوس ہوا لیکن اب اعجاز کا رویہ بتا رہا تھا کہ ”میں نہ ما نو ں“ہی اس کا وتیرہ رہے گا ۔رات گئے گھر واپسی۔دو ستو ں کے ساتھ وقت گزاری ۔یہی اس کی خو شی ہے ۔
اسے بھی پڑھئے:احساسِ ندامت نے اسے زندہ درگور کر دیا
اس قسم کے حالات میں مردو ں سے گزارش ہے کہ وہ صبر و قنا عت سے کام لیتے ہو ئے کچھ فیصلو ں کو اللہ کریم کی ر ضا جا نتے ہوئے، خو شی خو شی قبول کر لیں ۔زندگی کے ساتھی کو کم تر جا نتے ہو ئے ان سے ایسانا روا سلوک نہ کریں ۔شکل و صورت ہی سب کچھ نہیں ۔ جیسے جذبات و خیالات ان کے ہیں، ایسے ہی عورت کے بھی ہوتے ہیں، وہ بھی انسان ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مرد کے لا شعور میں اپنی بر تری کا احساس سمایا ہوتا ہے ۔ما ضی میں سسرا لیو ں کے مظالم کی دا ستا نیں عام تھیں لیکن اب لڑکے خود ہی ظالم بن چکے ہیں ۔نئی زندگی کی شروعات میں خود کو ’ ’چو ہدری “سمجھتے ہو ئے دوسرے کے جذبات کو رو ندتے چلے جاتے ہیں ۔نفر تیں جب دلو ں میں گھر کر لیتی ہیں تو کسی کی نصیحت بھی ا ثر نہیں کر تی ۔یہی وجہ ہے کہ آج شر ح طلاق میں ا ضا فہ ہو چکا ہے ۔
طلاق ایک ناپسندیدہ مگر جائز فعل ہے ۔حا لیہ سروے کے مطا بق اب اکثر جو ڑے بمشکل ایک سال ہی امن و سکون سے رہ پا تے ہیں ۔آج کے لڑ کو ں کو بے شمار حسینا ئیں نظر آ نے لگی ہیں ۔ہمارا میڈیا ان کی تر بیت میں پیش پیش ہے۔ آج کے نوجوانوں اور نئے نویلے جوڑوں میںگھر برباد کرنے والی جو عام روش فروغ پا رہی ہے اسے برسوں پہلے ایک شاعر نے یوں لفظوں میں مرتسم کیا تھا :
”تو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی 
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی“
کاش آج کے لڑ کو ں کو بھی والدین شادی سے قبل وفاداری کا درس دیں ۔تو تکار سے گھر کا ماحول خراب کر کے بے چاری لڑکی کی زندگی اجیرن کرنا انتہائی نا مناسب طرز عمل ہے ۔طلاق یا خلع ایک اذیت ناک فعل ہے ۔خو بصورتی عا ر ضی کشش ہے ۔عادات و اطوار ہی ہمیشہ رہنے والی خوبیاں ہیں ۔ا زدواجی زندگی کی خو بصورتی ایک اچھی قوم اوراچھے معا شرے کی بنیاد قرار دی جاتی ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معا شرے کا حصہ ہیں جہا ں حسن کا معیار گو را رنگ اور عقل کا معیار انگریزی زبان ہے ۔
 

شیئر: