Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھبرائیں نہیں حوصلہ رکھیں

*** خلیل احمد نینی تال والا***
آ ج کے اخبار کی سُرخی ’’گھبرائیں نہیں حوصلہ رکھیں ‘‘پڑھ کر دل دھک سے بیٹھ گیا۔ بڑی مشکل سے حوصلہ پکڑا اور پوری خبر پڑھنے کی ہمت کی تو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے فرمایاکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قیامت نہیں آجاتی ۔قوم پر ایسا وقت آتاہے اُس کو قربانی دینی پڑتی ہے ۔اس بحران سے نکلنے کیلئے 6ماہ درکار ہیں پھر اثرات نظر آئیں گے ۔اس خبر کو پڑھ کر اندازہ ہوا ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کی صرف تیاری کررہے تھے کہ یاروں نے ڈالرز کا کھلواڑشروع کردیا اور ایک ہی رات میں 10روپے بڑھادیئے اورمزید 5روپے بڑھنے کی بھی نوید سنائی۔ یعنی فی الحال 135اور 140کے درمیان ڈالر ملے گا ۔اُسی لحاظ سے دنیا بھر کی کرنسیاں 25فیصد مہنگی ہوگئیں ۔میڈیا پر عمران خان کا وہ ماضی کا کیسٹ بھی وائرل تھا کہ جس میں انہوں نے عوام کو خاص طور پر متوجہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس میری لاش پر سے گزر کر جانا ہوگا ۔ویسے تو پہلے ہفتے  ہی ہمارے وزیر خزانہ اسد عمر نے دبے دبے  لفظوں آئی ایم ایف جانے کی صرف بات چھیڑی تھی تو پی ٹی آئی والوں نے ہلکی پھلکی تردید کرکے معاملہ ٹھنڈا کردیا تھا ۔ورنہ تو پہلے ہی ہفتے ڈالر کی کھلواڑ شروع ہوجاتی مگر صرف 6ہفتوں میں عوام پر اُوپر تلے مہنگائی کی بمبار ی کی جارہی ہے ۔جس میں چینی (جو پہلے ہی گوداموں میں کثرت سے پڑی ہوئی تھی)3روپے کلو خودبخود اضافہ کرکے عوام کو حیران کردیا پھر بجلی ،گیس ،پیٹرول ،ڈیزل جو عالمی منڈی میں آدھے سے بھی کم نرخ پر دستیاب ہیں اضافہ کرکے قوم کے خواب چکنا چور کر دیئے گئے ۔تمام سبسیڈیاں ختم کرکے اُن سب کا بوجھ عوام پر ڈال کر وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔وہ خود عوام کے اعتماد سے کھیل رہے ہیں ۔ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں اُن کے دعوئوں کو جو وہ الیکشن سے پہلے کرتے رہے ہیں مذاق کہتی تھیں اب وہ تمام ایک ایک کرکے مذاق بنتے جارہے ہیں ۔
نیا پاکستان اور تبدیلی کے آثار فی الحال دور دور تک نہیں نظر آرہے ۔ماضی میں بھی وہ سیاست دان جو اب گھر بیٹھے ہیں اس قسم کے وعدے وعید کرکے ووٹ حاصل کرتے رہے کوئی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرکے خود اپنے محل میں کھانے کی دعوت میں پلیٹیں اٹھائے آگے پیچھے نظر آتا تھا ،تو کوئی کہ میں نواز شریف کو نہیں چھوڑونگا ،للکارتا رہا اور پھر انہی کے ساتھ خوش گپیا ںکرتا رہا ۔اب آگے ضمنی انتخابات میں سب یکجان بن کر پی ٹی آئی کے امیداوار کے خلاف ڈٹ چکے ہیں ۔جن میں فضل الرحمن کی بھر پور کوششیں بالآخر کام آگئیں اور اب پلڑا یک دم حزب اختلاف کے حق میں جھک چکا ہے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کی شکست ان پے درپے اقدامات سے عوام کا موڈ بھی اب جارحانہ ہوچکا ہے ۔عمرا ن خان کے ان یوٹرنوں اور ناکام مشیروں کی غلطیوںسے قوم کا اعتماد ہلتا نظر آرہا ہے ۔اب کوئی ایک مزید غلطی پی ٹی آئی کیلئے سانحہ سے کم نہیں ہوگی اورسب سے بڑی غلطی وہ بلند دعوے جو اربوں ،کھربوں کے ڈالرکے ثبوت ہونے کے باوجود آج تک ایک ٹکا بھی وصول نہیں ہوسکا اور اُن پر کیس پر کیس کرکے اُن کرپٹ سیاست دانوں کو مظلوم بنادیا ہے ۔عوام کی وہ ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کیلئے آخری حربہ انہوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر ثابت کرنا ہے کہ وہ مظلوم تھے۔ صرف 2 آدمیوں کو خاموش کردینے سے یہ طوفان نہیں تھمے گابلکہ اُن کی اس جیت سے قوم کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا ۔وہ تما م باہر بیٹھے مہرے پھر اسمبلیوں میں واپس آکر وہ شور برپا کریں گے کہ جس سے کرپشن کی لوٹی ہوئی دولت اُن ہی کے قبضہ میں رہ جائے گی ۔ آج ہی چیئر مین نیب کا بیان کہ ہم پاکستان کو کرپشن سے پاک ملک بناکر چھوڑینگے خود اُن کا منہ چڑائے گا ۔بھلا 73سال سے قوم کو مل کر لوٹنے والوں سے کوئی جیتا ہے ۔کوئی اُن سے پوچھے کہ نیب کا چیئر مین کس نے بنایا ہے ۔وہ تو خود حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشترکہ ناموں کی منظوری سے وجود میں آتا ہے ۔سینکڑوں مقدمات بنے مگر قانونی سقم کی وجہ سے لوگ8 ،آٹھ سال جیلوں میں رہ کر چھوٹ گئے یا پھر ملک بدر ہوکر واپس آگئے ۔کیا ایک پیسہ بھی اُن سے وصول ہوا۔  عدلیہ ،عوام سب تھک ہار کر خاموش ہوتے رہے ہیں ۔
آج بھی وہی کچھ دہرایا جارہا ہے ۔جب تک ہمارا نظام نہیں بدلے گا یہ قانونی سقم اُن کو بچاتی رہے گی۔سب سے پہلے ہماری پولیس کا نظام جدید تقاضوں پر لانا ہوگا ۔جیسے ہم نے ہائی ویز پولیس کا نظام تبدیل کرکے کامیابی حاصل کی ۔آپ ہائی وے پر لائن میں چلتے ہیں تمام قوانین کی پابندیاں کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اُن کی تنخواہیں بڑھاکر صرف8گھنٹے ڈیوٹیاں کردیں۔ چالان پر کمیشن دے کر اُن کا حوصلہ بڑھایا لہذا اب وہ رشوت کا سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں ۔اور کوئی چالان نہیں چھوڑتے خواہ گاڑی میں کتنی ہی بڑی شخصیت ہو ۔یور پ کی طرح مرعوب نہیں ہوتے تو پھر ہم اس کی ابتدا ء اندرون شہر کی پولیس سے کیوں شروع نہیں کرتے ۔اُن کی بھی وہ تنخواہیں اور مراعات اور ڈیوٹی اوقات جدید طریقوں سے ہم آہنگ کرکے کم از کم ایک تو اصلاحات کی طرف قدم بڑھائیں ۔
پولیس نظام کو دنیا بھر میں اولین سبقت دی جاتی ہیں مگر ہم نے ان کیلئے آج تک بے ہنگم نظام نافذ کررکھا ہے۔بھلا اٹھارہ 18گھنٹے ایک تھانے میں ڈیوٹی دے کر وہ کیسے معاشرے میں رہ سکتاہے۔ جب تک اُس کی ڈیوٹی 8گھنٹے اور اچھی تنخواہیں رہائش ،علاج معالجہ جس طرح فو ج میں ہر کسی کو ملتا ہے ۔وہی نظام پولیس میں بھی لانے سے خوش گوار تبدیلی ممکن ہے ورنہ کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب صرف خواب ہی رہے گا ۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے سی پیک کارڈ کیش کرانا چاہیے ۔چائنہ بھی اب اس میں بڑی تبدیلیاں لانے کیلئے تیا ر ہے ۔ یواے ای اور روس سے ایڈوانس لے کر سی پیک کو متحرک کرائیں ۔100ارب ڈالرز سے زائد حصہ دار مل جائیں گے نہ آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی قرضہ کی ضرورت پڑے گی ۔حکمت سے کام لیں دنیا کی نظریں سی پیک پر لگی ہیں ۔فیڈریشن اور چیمبرز کے صدور سے مشورہ کریں ۔
 

شیئر: