Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب پولیس پر دبائو

**سید شکیل احمد  **
یہ ہر ملک کی روایا ت میں شامل ہے کہ جب ملک کا انتظامی ڈھانچہ چاہے وہ انتخابات کی بنیا د پر یا کسی اور وجہ سے تبدیل ہو ا کرتا ہے تو وہا ں کی انتظامیہ میں اکھاڑ پچھاڑ ضرور ہوتا ہے۔ نئے حکمر ان اپنی پسندیدہ انتظامیہ کی تقرری کر تے ہیں تاکہ ان کو حکومتی امو ر چلا نے میں کسی کٹھن مر حلے سے دوچار نہ ہو نا پڑ ے چنا نچہ جب پا کستان میں ماہ جو لا ئی میںنئے انتخابا ت ہوئے تو انتخابات کی غیر جانبدار ی کی غرض سے جہا ںعبوری دور حکومت لا یا گیا وہا ں اعلیٰ افسرو ں کو بھی تبدیل کر دیا گیا کیو نکہ یہ اعلیٰ افسران سابقہ حکو مت کے متعین کر دہ ہوتے ہیں اس طر ح اس امر کا اندیشہ ہوتا کہ کہیں انتخابات میں جانبداری کا عنصر شامل نہ ہو جا ئے ۔اب جبکہ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو روایت کے مطا بق اس نے بھی افسرو ں کو پسندید گی اور نا پسند ید گی کی بنیا د پر تقرروتبادلے کا عمل ترجیحاًکیا اورپو لیس آفیسرطاہر خان کو پنجا ب کا انسپکٹرجنرل پو لیس تعینا ت کر دیا مگر ان کی تقرری کا ایک ما ہ کا عرصہ گزرا ہی تھا کہ انھیں تبدیل کر کے امجد جا وید سلیمی کو نیا آئی جی پنجا ب متعین کر دیا۔ حکومت کے اس فعل پر الیکشن کمیشن نے طاہر خان کے تبادلے کے نو ٹیفکیشن کو فوری طو رپر معطل کر دیا کیو نکہ الیکشن کمیشن کا مو قف ہے کہ جب عام انتخابات ہو رہے ہو ںتو حکومت کا یہ حق ساقط ہو جا تا ہے کہ اعلیٰ سطح پر افسرو ں کے تبادلے یا تقرریاں انجام دے۔ اس وقت ملک بھر میں ضمنی انتخابات کا مر حلہ جا ری ہے اس لیے نئی تقرریا ں نہیں ہو سکتیں  ۔ طاہر خان کے استعفیٰ کے ساتھ ہی یہ خبربھی آئی کہ چیئر مین پنجا ب پو لیس ریفارمر کمیشن نا صر خان درانی بھی مستعفی ہو گئے ہیں  ۔وہ کیو ں مستعفی ہو ئے؟ اس بارے میں 2باتیں سامنے آئیں کہ انھو ں نے اپنے استعفیٰ میں ملا زمت سے سبکدو ش ہونے کی وجہ بیماری درج کی ہے جبکہ اس وقت یہ بھی سنا گیا کہ وہ سیا سی مداخلت ختم نہ ہو نے پر چلے گئے ۔
اب خبر آئی ہے کہ تحریک انصاف حکومت پو لیس پر روایتی سیا سی اثر رسوخ کے خاتمے کے لیے آما دہ نہیں اور پنجا ب پو لیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ نا صر دارنی کا استعفیٰ اسی کی کڑی ہے ۔بات کو مختصر انداز میں یو ں سمجھ لیا جا ئے کہ طاہر خان کا تبادلہ اسی سیا سی اثر رسوخ کا شاخسانہ ہے جس کے نا صر درانی مخالف ہیں  ۔طاہر خان کے تبادلے کے محرکا ت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاک پٹن معاملہ اور پھر پنجا ب کے سینیئر وزیر محمود الرشید کے بیٹے کے کر تو ت کا خمیا زہ ہے ۔
وزیر اعظم عمر ان خان جس طر ح پو رے ملک میں یکساں بلدیاتی نظام کی کا وشو ں میں ہیں، اسی طر ح وہ پنجا ب پو لیس میں کے پی کے پولیس کی طر ز کی اصلا حات لانا چاہتے تھے ۔ انھو ں نے گزشتہ ساڑھے 4سال اس امر کی خوب ڈونڈی پیٹی ہے کہ انھو ں نے کے پی پو لیس کو دنیا کی مثالی پو لیس بنا دیا ہے اور سیا سی مداخلت ختم کردی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کے پی پولیس ہر دور میں مثالی رہی ہے ۔ ایو ب خان مر حوم بھی اس خطے کی پو لیس کی تعریف کیا کر تے تھے۔ جنرل ضیا ء الحق بھی اس صوبے کی پولیس کی تعریف کر تے تھے۔ یہ تعریف محض لفاظی نہیں تھی بلکہ سچائی کی بنیا دو ں پر مبنی تھی ۔بہر حا ل پی ٹی آئی کے سابق دورحکومت میں پو لیس کی اسی شکا یت پر پو لیس ریفارمز کا فیصلہ ہو ا  جس کا عمر ان خان نے خوب ڈھنڈورا پیٹا کہ وہ ایک انقلاب  لے آئے ہیں اس انقلاب کے پس وپشت نا صر درانی کا ہاتھ تھا چنا نچہ پنجا ب کے لیے انھیں اسی بنیا دپر ذمہ داری تعویض کی گئی تھی ۔
عمر ان خان جو آج تک یہ کہتے ہو ئے نہیں تھکتے کہ کے پی پولیس مثالی بنا دی ہے اگر جائزہ لیا جائے تو پو لیس کے وسائل بڑھا دینا ، جدید آلا ت سے آراستہ کر دینے سے کارکردگی میںفرق تو ضرور پڑتا ہے مگر ایسی بھی مثالی کا رکردگی نہیں ہوئی کہ ملک بھر کی دیو ارو ںپر اس کو بے بدل کا میا بی قرار دینے کی پر چیا ں آویزاں کر دی جائیں ۔ کے پی پولیس کے ایک سابق اعلیٰ افسر سید اختر علی شاہ بہت لِجینڈ ، فرض شنا س افسر گزرے ہیں۔ وہ پشاور کے معزز سادات خاند ان کے چشم وچراغ ہیں ان کے خاندان کو اس کی اعلیٰ صفات کی وجہ سے عزت اوراحترام کی نظرسے دیکھا جا تا ہے چنا نچہ گزشتہ روز اختر علی شاہ کا ایک مضمو ن پو لیس میں ریفارمز ،کتنی حقیقت ، کتنا افسانہ کے عنو ان سے    سوشل میڈیا پر نظر سے گزرا جس میں حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ حقائق اس لیے سچے ہیںکہ ایک پو لیس آفیسر کے رشحات قلم ہیں جو 3 دہا ئیوں تک پولیس محکمے سے وابستہ رہے ہیں۔انھو ں نے پچھلے2ادوار کا تقابلی جا ئزہ پیش کیا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ صوبے میں اے این پی کے دور حکومت میں عسکر یت پسندی عروج پر تھی۔ ان عسکر یت پسندو ں نے تذبذب کافائدہ اٹھاتے ہوئے متوازی حکومت کھڑی کر دی تھی چنانچہ پو لیس فورس کو ان کا مقابلہ کر نے کے قابل بنا نے کی غرض سے اہم اقداما ت کیے گئے ۔اے این پی کی حکومت نے گزشتہ 15سالو ں کے مقابلے میںپولیس بجٹ کو بام عروج دیا پو لیس کی نفری جو پہلے  26ہزار تھی وہ بڑھا کر  75ہزا رکی گئی ، پولیس کو اپنے ترقیا تی کا م خود کر نے کا اختیا ر دیا گیا۔ اے این پی نے پو لیس کی استعداد کا رکر دگی بڑھا نے کے لیے فوج کی مد د سے تربیت کا اہتما م بھی کیا۔ نو شہر ہ میں امریکی امد اد سے پولیس کا خصوصی تربیتی مر کز قائم کیا گیا اور دہشتگردی کے خاتمے کی عمد ہ تربیت دی گئی ۔ پولیس فورس کو جدید اسلحہ اور سازو سامان سے لیس کیا گیا ، اس تربیت او ر جدید سازوساما ن کی بدولت دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا ۔
 
 

شیئر: