Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مضبوط معیشت کےلئے سیاسی استحکام ضروری

***ڈاکٹر منصور نورانی***
ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا وطنِ عزیزجب سے معرض وجود میں آیاہے معیشت کے حوالے سے ہمیشہ ہی غیر مستحکم اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔چند ایک سال اچھے گزرتے ہیں اور خوشحالی اور بہتر مستقبل کی آس واُمیدبندھنی شروع ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ ایسا ظہورپذیر ہوجاتا ہے کہ ساری آس واُمیدیںخاک میں مل جاتی ہیںاور ہم اُلٹے قدم پیچھے کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں۔ان  70 سالوں میں چند ہی سال ہماری زندگی میں ایسے گزرے ہیں جب ہم پرسے مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے بادل چھٹ پائے ہوںاور ہم ترقی و خوشحالی کے سورج کی روشن کرنیں اپنی سرزمین پر بکھرتا دیکھ پائے ہوں۔دیکھا جائے تو ہمیں اپنی اِن ساری ناکامیوں اور نامرادیوں کے پیچھے کارفرما ہمارا وہ سیاسی نظام ہی نظر آئے گاجو خود کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔کبھی غیر جمہوری طالع آزماؤں کے  اقدامات کی وجہ سے اور کبھی ہمارے سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش اور نفرت و اشتعال کی وجہ سے۔یاپھر نااہل اور ناسمجھ اُن حکمرانوں کی وجہ سے جو اپنی ضد اورانا کے باعث اپنے پیش رؤں کے تمام کاموں اور منصوبوں کی بیخ کنی اور منسوخی پر تلے ہوئے ہوتے ہیںخواہ وہ کتنے ہی ملکی اور قومی مفاد میں کئے گئے ہوں۔ہمارے انہی رویوں کی وجہ سے ہم آج اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں کے باوجود ترقی و خوشحالی کی منزلوں کواب تک پا نہیں سکے ۔ہم کبھی سوشلزم اور کمیونزم کے سحر میں  گرفتار ہوکر ایوب دور کی 10 سالہ اُس ساری محنت و کامرانی پر لمحے بھر میں پانی پھیر دیتے ہیں جس کی بدولت ہمارا ملک اِس خطے کا ایک مثالی صنعتی ملک بننے جارہاتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کمیونسٹ سوچ نے اِس ملک کے تمام اداروں اور محکموں کو قومی ملکیت میں لے کر تباہ و برباد کرڈالا۔ فیکٹریاں ، کارخانے ، بینکس اور تعلیمی درسگاہوں سمیت ہر شعبے کو حکومتی تحویل میں لیکر اُن کا حلیہ ہی بگاڑ کررکھ دیاگیا۔ 70کی دہائی میں کئے گئے اِن سارے فیصلوں کا خمیازہ ہماری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اِن تمام اداروں میں ضرورت سے ذیادہ افراد کو بھرتی کرکے ہم نے خود ہی انہیں خسارے کے دلدل میں ہمیشہ کیلئے دھکیل دیا۔اسٹیل مل ، پی آئی اے ، واپڈااورریلوے سمیت بہت سے ادارے ایسے ہیں جو آج تک اِس دلدل سے باہر نہیں نکل پائے۔اُن کا روز افزوں خسارہ ہماری کمزور معیشت کیلئے آج بھی ایک  بہت بڑی مصیبت بناہواہے۔
ٓٓاسی طرح ہمارے آج کے یہ نئے حکمراں بھی  انقلابی سوچ کی وجہ سے کچھ ایسے غلط اور ناقص فیصلے کئے جارہے ہیں جنکی وجہ سے ملک آگے کی بجائے پیچھے کی جانب تیزی سے بڑھتا جارہاہے۔وزیراعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بھی ہمارے اِن نئے حکمرانوں کے بچکانہ انداز فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔دنیا بھر میں وزیراعظم ہاؤس ، ایوان صدر اور گورنر ہاؤسز خاص الخاص عمارتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔وہاں باہر سے آئے ہوئے غیر ملکی صدور، وزرائے اعظم اوروفود سے اہم سرکاری میٹنگز اور کانفرنسس ہوا کرتی ہیںاور وہاں اُنہیں استقبالیہ بھی دیا جاتا ہے۔یہ عمارتیں اُس ملک کی شان و شوکت اورعزت ووقار کانشان ہوا کرتی ہیں۔انہیں یونیورسٹیوں میں تبدیل کرکے ہم اِس ملک کی کوئی بہت بڑی خدمت نہیں کررہے ہوں گے۔ یونیورسٹیاں کہیں اور بھی بنائی جاسکتی ہیں۔سیکیورٹی اعتبار سے اتنے حساس علاقے کو اِس طرح ہم غیر محفوظ بنارہے ہونگے۔سب سے بڑھکر یہ کہ اِس طرح ہم آئندہ آنے والے غیر ملکی وفود اور صدور یاوزرائے اعظموں کو پھر کہاں استقبالیہ دیا کرینگے۔دو طرفہ تعلقات پر مبنی کانفرنسیں پھر کیا کسی کرائے کی جگہوں پر کی جائیں گی۔ سابقہ حکومتوں کے اچھے کاموں پربلاوجہ تنقید کرکے اُنہیں منسوخ کرنے کا سلسلہ اب ختم ہوجانا چاہئے۔سڑکیں اورشاہراہیں بناناکسی بھی لحاظ سے غلط اور غیر ضروری نہیں ۔موٹرویز کی اہمیت ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔ "سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ" کا منصوبہ بھی اگر غور سے دیکھا جائے تویہ بھی سڑکوں اور شاہراہوں پر مشتمل ایک عظیم منصوبہ ہے جس سے اِس دنیا کی سامراجی قوتیں ایک انجانے خوف میں مبتلاہیں۔ میاں نوازشریف نے اپنے پہلے دورحکومت میں موٹرویز کامنصوبہ شروع کیاتو ہمارے بہت سے سیاسی حلقوں کی جانب سے اُس پر بہت تنقید کی گئی مگر آج 25 سال گزرجانے کی بعد سب کے سب اِس کی اہمیت و افادیت کے قائل نظر آتے ہیں۔اِسی طرح میٹروبس کو جنگلا بس منصوبہ قراردینے والے بھی خود اپنے شہر پشاور میں اسے بالآخر شروع کرنے پرمجبور ہوگئے۔متوسط اور غریب لوگوں کی سہولت میٹروبس منصوبہ یقینا ایک لائق تحسین منصوبہ ہے۔اِس پردی جانے والی سبسڈی پر بھی اعتراض غلط اور غیر منطقی ہے۔ہمارے خیال میں عوام کاپیسہ اگر عوام پر ہی خرچ ہوتواُس کرپشن اورغبن سے یقینا بہتر ہے جو اِس سے پہلے آنے والے حکمراں بڑی چالاکی اور ہشیاری سے کرتے رہے۔صوبہ سندھ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔یہاں پچھلے 10 سالوں میں ٹرانسپورٹ سمیت عوام کی بھلائی کے کسی منصوبے پرکوئی کام نہیں ہوا۔لیکن بجٹ سارا کا سارا ہڑپ کرلیاگیا۔میٹرو بس پر سبسڈی دئیے جانے پراعتراض کرنے والوں کو نجانے بے نظیر انکم  سپورٹ پروگرام پرخرچ ہونے والی اربوں روپے کی رقم کیوں دکھائی نہیں دیتی جو ہرسال قومی خزانے سے دیکر قوم کوبھکاری بنانے میں استعمال ہورہی ہے۔اِس کی آڑ میں نجانے کتنی رقم کرپٹ مافیاکی جیبوں میں جارہی ہے اِس کابھی کسی کو غم نہیں۔بہتر تو یہ ہوتا کہ اِس رقم سے لوگوں کوروزگار دینے کے کوئی ذرائع پیدا کئے جاتے اور اُنہیں بھکاری بنانے کی بجائے کسی کام کے قابل بنایاجاتا۔
ہمارا قومی المیہ ہی یہی ہے کہ اول تو یہاں کسی جمہوری حکومت کو پانچ سال سے زیادہ چلنے نہیں دیاجاتا اوراگر خوش قسمتی سے کوئی حکمراں اپنے پانچ سال پورے کرجائے تو نیا آنے والا اُس کے تمام کاموں کو رول بیک کردیتا ہے خواہ وہ اِس ملک و قوم کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہوں۔ہمارے لوگ ترکی کے صدر طیب اردگان کی بڑی مثالیں دیا کرتے ہیں  لیکن یہ نہیں بتاتے کہ طیب اردگان کو کامیابی اورکامرانی کی منزلیں عبور کرنے کیلئے اُن کی قوم نے اُنہیںکتنے سال تفویض کئے۔وہ 2003ء سے مسلسل برسراقتدار ہیں۔ 15 سال میں انہوں نے اپنے ملک کو اِس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہے کہ ساری دنیا اُنکے کاموں کی معترف ہورہی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں جب جب معیشت کی بہتری کے کچھ آثار نمودار ہوتے ہیں کچھ طالع آزما  سارا نظام ہی الٹ پلٹ کررکھ دیتے ہیں۔معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام بھی نہایت ضرور ی ہواکرتا ہے۔ یہ دونوں لازم اورملزوم ہیں۔قوم یہ جان لے کہ جب تک ہمارے یہاں سیاسی استحکام ممکن نہیں ہو گامعاشی استحکام بھی نہیں آپائے گا۔   
 

شیئر: