Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹو ٹے دلوں کو جوڑنے سے ملنے والے سکون کا بدل کوئی نہیں

تسنیم امجد ۔ریا ض
ما ضی کی یہ حقیقت دس برس پرا نی ہے ۔گز شتہ دنو ں اچانک ہم نے با زار میں عمارہ اور نعیم کو دیکھا ۔وہ ایک ہو ٹل سے نکل رہے تھے۔بہت خو شی ہو ئی ۔دو نو ں خوش نظر آ رہے تھے۔بضد ہو ئے کہ کا فی ایک ساتھ پیتے ہیں ۔کہنے لگی کہ آج ہم ایک لمبے عر صے کے بعد ایک ساتھ با ہر نکلے ہیںکیو نکہ نعیم کی وا پسی ہی گز شتہ ہفتے ہو ئی ہے ۔ بیگم طا ہرہ علی کو اللہ تعالیٰ خو ش رکھے۔ان کے شو ہر امریکہ میں ہیں۔ انہوں نے نعیم کے علاج کی تمام ذمہ داری ا ٹھا لی اور ہماری خو شیا ں ہمیں لو ٹا دیں ۔ہماری گپ شپ کافی دیر رہی اور پھر ملنے کے وعدے پر ر خصت ہو گئے ۔
ہمیں وہ دن ایک فلم کی طر ح یاد آ نے لگے جب عمارہ نے فیس بک پر ا پنا نام بدل کر ”ضرورت ملا ز مہ“ کے صفحے پر خود کو ڈال دیا۔ جلد ہی اسے انٹر ویوز کے لئے میسجز آ نا شروع ہو گئے ۔اس کی سمجھ میںنہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ کام کیسے کر پا ئے گی لیکن حالات کی مجبو ری نے اسے ایسا کرنے پرمجبور کر دیا ۔ وہ صرف گر یجویٹ تھی ۔اس نے ملا زمت کر نا چا ہی لیکن جلد ہی ا حساس ہو گیا کہ اس کی تعلیم کم ہے ۔دو نو ں بچے بھی اب سکول جانے کی عمر کے ہو گئے تھے۔ اسے یہ فکر کھا ئے جا رہی تھی ۔اس کے شو ہرنعیم کو جب سے دما غ میں رسولی بتا ئی گئی تھی، اس کے بعد سے تودو نو ں کو چپ لگ گئی تھی ۔اس کی کو شش تھی کہ ان پر کو ئی ذہنی دبا ﺅ نہ ہو ۔کم عمری میں ہی اسے اس صدمے سے گز ر نا پڑا۔ نعیم کی ملا ز مت بھی کو ئی خا ص نہ تھی لیکن پھر بھی وہ مطمئن تھے ۔دو نو ں ما مو ں زاد تھے اور شادی بھی پسند کی تھی ۔عمارہ نے بچپن سے ہی اپنی والدہ اور ما مو ں کا بہت پیار دیکھا تھا۔انہو ں نے جب یہ بچے تھے تو تہیہ کر لیا تھا کہ دو نو ں بہن بھا ئی اس نئے رشتے میں بھی بندھ جا ئیں گے ۔
ڈا کٹروں کا کہنا تھا کہ یہ بچپن کی کسی چو ٹ کا ا ثر ہے ۔اکثر گرنے سے خون جمنے کی پر وا نہیں کی جا تی۔خیر اب تو کچھ ہو نہیں سکتا تھا۔ آپریشن کے لئے بھی رقم در کار تھی ۔وہ کسی کو بتا نا بھی نہیں چا ہتی تھی ۔والدین عمر کے جس حصے میں تھے ،یہ صد مہ کیسے سن سکتے تھے ۔بعض اوقات خا مو شی ا ختیا ری نہیں ،مجبو ری ہو تی ہے کیو نکہ انسان جھو ٹ بو لنا نہیں چا ہتا اور سچ بو ل نہیں سکتا ۔وہ عجیب کشمکش میں تھی ،سو چنے لگی:
خواب مہنگے بہت پڑے ہم کو
غم کی مقروض ہو گئی آ نکھیں
  اس نے ایک دن میں دو جگہو ں پر انٹر ویو کے لئے جا نے کا سو چا ۔پہلے دن ہی اسے احساس ہو گیا کہ ملاز مہ کی حیثیت سے خود کو بیگمات کے سپرد کرنا بہت مشکل ہو گا ۔اکثر جا ہل خواتین سے وا سطہ پڑا ۔پوش علاقوں میں رہنے وا لیا ں اپنا پورا گھر ملا ز مو ں اور خا د ما ﺅ ں پر چھو ڑ نے میں محسوس کر تی ہیں ۔ان کا زیا دہ وقت شا پنگ ،پا ر ٹیز ،سیلون اورجم خانے کی نذر ہو جا تا ہے ۔وہ گھریلو کا موں کو بو جھ جا نتی ہیں ۔ ماسیوںاور خاد ما ﺅ ں سے کام کرانا اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے ۔اگر کوئی خا تون اپنے گھر کا کام خود کر تی ہے تو دو سری خوا تین اسے اس کی معاشی مجبوری قرار دے کر ا حساسِ کمتری کا شکار کر دیتی ہیں ۔
ہم مغرب کی نقالی ویسے تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جا نتے کہ وہا ں تو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو برا نہیں جا نا جا تا ۔یہی خوا تین جب ان ملکو ں میں جا تی ہیں تو ان کے سارے کس بل نکل جا تے ہیں کیو نکہ وہا ں تو سارے کام خود کرنے پڑ تے ہیں لیکن کیا کریں وہا ں وہ فخر محسوس کرتی ہیں ۔عمارہ نے ہر جگہ جا کر دیکھا لیکن کہیں مطمئن نہ ہو ئی ۔ہر ایک کا بات کرنے کا انداز ہی تحقیر آمیز تھا ۔اسے محسوس ہوتاجیسے کسی نے اسے اوپر سے نیچے پٹخ دیا ہو ۔
ایک روزآ خر اس کی دعاقبول ہو گئی ۔بیگم طا ہرہ علی کو ٹیوشن کے لئے گھرپر لیڈی ٹیچر کی ضرورت تھی ۔وہ خاتون خود بیمار تھیں اور بچوں کو گھر پر ہی کو چنگ کرانا چا ہتی تھیں۔ان کے شو ہر امریکہ میں تھے ۔اس نے خوشی خو شی وہا ں را بطہ کیا اور دل و جان سے ملا زمت شرو ع کر دی ۔تھو ڑے ہی وقت میں دوستی ہو گئی اور وہ اپنے بچے بھی ساتھ لے کر جا نے لگی ۔اس طر ح وہ بھی کچھ نہ کچھ پڑ ھنے لگے ۔ذرا ذہنی سکون ہوا تو اس نے شام میں سلائی کا کام شروع کر دیا ۔اس کے سا منے لگن تھی کہ وہ نعیم کا علاج کرا دے جو خا صا مہنگا تھا ۔
وقت پر لگا کر اڑ تارہا ۔5 سال گزر گئے ۔ایک دن با تو ں ہی با تو ں میں اس نے شو ہر کے علاج کا ذکر کیا تو اس خا تو ن نے اسے اس کی رپو ر ٹس لانے کو کہا ۔چند دن بعد اس نے عمارہ سے کہا کہ میرے شو ہر نے اس کے آ پریشن کی بات کر لی ہے۔وہ سب آ نے جا نے کا انتظام کر دیں گے ۔تم بے فکر ہو جا ﺅ۔اس دن اس نے رات بھراللہ کریم کے سامنے گڑ گڑاتے گزاری ۔اسے یقین نہیںآ رہا تھا کہ اس کے مسائل اس طرح با عز ت طریقے سے حل ہو جا ئیں گے ۔
بیگم طا ہرہ علی اس کے لئے اتنی ہمدرد ثابت ہو نگی ۔وہ اسے قدرت کی جانب سے ہونے والی مدد سمجھ رہی تھیں کیو نکہ اب وہ اپنے شوہر کے پاس جا چکی ہیں۔ان کو رخصت کرتے ہو ئے وہ بہت اداس تھی لیکن وہ بو لیں کہ اب بچو ں کی تعلیم کی مجبوری ہے ۔فکر نہ کرو را بطے میں رہیں گے ۔تمہارے بچے بھی جب بڑے ہوجائیں گے تو بتانا ،انہیں بھی تعلیم کے لئے ہم بلا لیں گے ۔
بلا شبہ خو شی و مسرت اس جذ بے کا نام ہے جس سے ہمارے دل کوسکون ملے۔زندگی میں ہر دل کی تمنا یہی ہو تی ہے کہ اس پر ہمیشہ خو شیو ں کے دروازے کھلے رہیں۔خوشی و مسرت کو تلاش کرنے کا راز تقدیر پر را ضی ہو نے میں ہے ۔زندگی کے تمام مصائب کو صرف ربِ کائنات کی ر ضا سمجھ کر بر دا شت کر لینا ہی عقلمندی ہے ۔
حصول مسرت و کون کا دوسرا راستہ اللہ کریم کی مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک ہے ۔دوسروں کی فلا ح بہبود کے لئے سوچنے اور اپنے آپ کو دوسروں کی خد مت کے لئے وقف کر دینے سے حقیقی خو شی ملتی ہے ۔بکھرے ہو ئے لو گو ں کی حو صلہ افزائی اور ٹوٹے دلوں کو جوڑنے سے جو سکون ملتا ہے، اس کا کو ئی بدل نہیں ۔کسی کی زندگی میں سایہ بن کر شا مل ہو نے سے آ پ کو بھی ٹھنڈک کا ا حساس ہو گا ۔کسی شا عر نے واقعی کیا سچ کہا ہے کہ :
 خو بصورت ہو ں در و دیوار چا ہے جس قدر
ہے محبت سے اگر خا لی ، تو گھر اچھا نہیں
          
 

شیئر: