Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی بننا ضروری تو نہیں

***وسعت اللہ خان***
صحافت کا معیار پروفیشنل رپورٹرز اور ایڈیٹرز ڈیفائن ہی کرتے ہیںمگر آج کل سیلفی جرنلسٹ بڑھ رہے ہیں۔سیلفی جرنلسٹ سے میری مراد وہ صحافی ہے جو اپنے عشق میں مبتلا ہے۔اسے کوئی غرض نہیں کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔اسے صرف اس سے مطلب ہے کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔اس کا چہرہ کیسا لگ رہا ہے۔اس  کے اپنے خیالات کیا ہیں۔وہ چاہتا ہے کہ کیمرہ اسی پر فوکس رہے۔اس  کے لئے سب سے اہم شے اس کی اپنی آواز اور صورت ہے۔باقی سب ثانوی ہے بلکہ ایک بیک ڈراپ ہے ، ایک لایعنی شور ہے۔
سیلفی جرنلسٹ کے لئے حقائق کی کوئی اہمیت نہیں۔سیلفی جرنلسٹ اپنی ذات کے فریم میں کوئی ایک جھنڈا لگاتا ہے اور اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔کیا زمانہ تھا جب ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر نے ایک رپورٹر کو اس لئے نوکری سے فارغ کردیا کیونکہ ایک وزیرِ اعلی نے کسی تقریب میں اس ایڈیٹر سے کہا کہ آپ کا رپورٹر بہت اچھا کام کر رہا ہے۔
آج کی صحافی نسل ری ٹویٹس اور لائکس کے دور میں جی رہی ہے اور اس نسل کو نہیں معلوم کہ سرکار کی طرف سے ناپسندیدگی کسی صحافی کے لئے تمغہِ عزت ہوتا ہے۔صحافی کا بنیادی منصب اس کے سوا کیا ہے کہ اس کے حقائق درست ہوں اور لوگوں کی اکثریت اس کی خبر پر اعتماد کرے اور یہ اعتماد صحافی یا صحافتی ادارہ ہی پیدا کرسکتا ہے،کوئی اور نہیں۔ایسا نہیں کہ اچھی صحافت مر رہی ہے یا سکڑ رہی ہے لیکن بری صحافت اتنا شور مچا رہی ہے کہ اس شور میں اچھی صحافت دبتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ہمیں اس شور سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دیکھنے والے کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ایک بڑی طاقت ہے۔ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہئے۔
قلم اور حرف استرے کی طرح ہے۔حجام کے ہاتھ میں ہے تو اوزار ہے۔اناڑی کے ہاتھ میں ہو تو ہتھیار ہے اور بندر کے ہاتھ میں ہو تو آلہِ آزار ہے۔اپنے لئے بھی اور سامنے والے کے لئے بھی۔خبر اور سیلاب منہ زور ریلہ ہوتے ہیں۔اگر ڈیم بنائے جائیں تو سیلاب کو زمین کی آبیاری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے یا پھر بیراجی فلڈ گیٹس کے ذریعے محفوظ طریقے سے گزارا جاسکتا ہے۔خبری سیلاب کو بھی ایڈیٹوریل ڈیمز بنا کر ملک و سماج کی زرخیزی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔فلڈ گیٹس کے ذریعے آنے والی خام خبر کو پیشہ ور ہاتھ  پکے اخباری نالوں کے ذریعے اطلاعات کی بھوکی ذہنی زمین کو سینچنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیںلیکن خبر کو اگر بنائے سنوارے بغیر خام حالت میں ہی گزرنے دیا جائے اور اس میں سے ذاتی خواہشات کے گھاس پھونس ، تھرڈ پارٹی ایجنڈے کی آلودگی اور آدھے سچ کو آدھے جھوٹ کی آمیزش سے پیدا ہونے والے فضلے سے الگ کئے بغیر میدانوں میں پھیلنے دیا جائے تو ایسا خبری سیلاب رہی سہی سماجی زرخیزی کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔
آج کی صحافت کو معیاری بنانے کی راہ میں ایک اور بڑا چیلنج ریٹنگ کی وبا ہے جس نے خبر کو انفوٹینمنٹ میں بدل ڈالا ہے۔میرے خیال میں ریٹنگ کے تصور کے موجد بس اور ویگن ڈرائیور ہیںجنہیں مالکان مجبور کرتے ہیں کہ جتنی زیادہ سواریاں اٹھاؤ گے اتنا کمیشن ملے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو سفر ایک گھنٹے کا ہے۔ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے آدھے گھنٹے میں ہی طے کر لیا جائے اور پیچھے آنے والی ویگن کے مسافر بھی اٹھا لئے جائیں۔اس چکر میں ان بسوں اور ویگنوں کی اندھی ریس شروع ہو جاتی ہے اور سڑک پر ایک طوفان آجاتا ہے۔حادثات ہوتے ہیں۔کئی بسیں الٹ جاتی ہیں یا مسافر کچلے جاتے ہیں۔ خبر کی ٹرانسپورٹ کرنے والے میڈیم اور مسافروں ڈھونے کی ہوس میں مبتلا ٹرانسپورٹ میں کچھ تو فرق رہنا چاہئے۔نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا اور شام کے گرما گرم اخبار میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔یوں لگنے لگا ہے گویا خبر دی نہیں جا رہی۔خبر کی قے کی جا رہی ہے اور رات 12 بجے تک رائے عامہ کا پورا فرش ان خبری الٹیوں سے بھر جاتا ہے اور پھر اگلی صبح دوبارہ قے شروع ہو جاتی ہے۔یہ صحافت نہیں ہلکے پیٹ کی بیماری ہے۔اس کا علاج ہونا چاہئے۔
جس طرح ایک پیشہ ور فوج ایک موثر ڈسپلن کے سوا کچھ نہیں اور اگر اس کا دل دفاع کی بنیادی فرض کے علاوہ ادھر ادھر کی اٹریکنشنز میں لگ جائے تو پھر وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتی۔اسی طرح اگر میڈیا کی فوج  سچی ، متوازن اور شفاف خبر کے حصول اور اسے قاری یا ناظر تک پیشہ ورانہ انداز میں پہنچانے کے بنیادی کام کو ثانوی سمجھنا شروع کردے اور مراعات ، غیر ضروری تعلقات اور اپنا الو سیدھا کرنے کے کام میں لگ جائے تو پھر بقول سراج اورنگ آبادی یوں ہوتا ہے کہ:
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا ، نہ پری رہی 
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا ، جو رہی تو بے خبری رہی
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گھٹن بہت ہے۔صحافی اور صحافت اسٹیٹ اور نان ا سٹیٹ ایکٹرز کے محاصرے میں ہے۔تحقیقی صحافت جان جوکھوں میں ڈالنا ہے۔اس راہ میں جاں کا ضیاع بھی ہو جاتا ہے۔پاکستان ویسے ہی صحافیوں کے لئے 5سب سے غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔صحافی بھی بال بچے دار ہوتے ہیں۔یہ سب باتیں اور خدشات بالکل درست ہیںمگر پھر کس نے کہا تھا کہ آپ صحافت ہی اختیار کریں۔ آخر اس ملک کو اچھے کلرکوں ، منشیوں ، ڈاکٹروں ، انجینئروں ، مکینکوں ، کورئیرز وغیرہ کی بھی تو بہت ضرورت ہے  ، کسی اشتہاری کمپنی میں ہی چلے جائیں۔کچھ اور نہیں تو ڈاکخانے کے باہر بیٹھ کر لوگوں کے خط لکھنا شروع کردیں۔لہذا مجھے کوئی یہ نہ بتائے کہ صحافت مشکل ہے۔ہاں مشکل تو ہے مگر آپ خود کو کیوں مشکل میں ڈال رہے ہیں۔مرچوں سے زبان بھی جل رہی ہے اور کھانا بھی نہیں چھوڑ رہے۔ مت دھوکہ دیں خود کواور پھر ہم سب کو۔
 
 

شیئر: