Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لہو لہو

***جاوید اقبال***
تو اگر الحاق کی دستاویز پر مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے 26اکتوبر کو دستخط کئے تھے اور وہ کاغذات ہندوستانی وزیر برائے ریاستی امور وی پی مینن لے کر دہلی پہنچا تھا جہاں برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہری سنگھ کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس دستاویز پر اپنے دستخط ثبت کر دیئے تھے او ریہ 27کو  ہواتھا تو پھر کیوں اس مسودے کو قانونی حیثیت ملنے سے پہلے ہی ہندوستان نے  اپنی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتارنا شروع کر دی تھی۔ غیر یقینی حالات و واقعات کی اس دھند میں انتہائی چالبازی سے ریاست جموں و کشمیر پر ہندوستان نے غاصبانہ قبضہ کیا اور آج تک عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہا ہے۔معروف تاریخ دان وکٹوریہ شو فیلڈ کا تو کہنا ہے کہ ہندوستان سے الحاق کی دستاویز کا کوئی وجود نہیں۔ یہ آج تک دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی۔ آئیے وہاں چلتے ہیں جہاں سے تاریخ کی ستم ظریفی نے آغاز کیا تھا۔ 15اگست 1947ء کو جب ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہوا تو سوال اٹھا کہ اس کی 565ریاستوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ چنانچہ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کر لیں۔ ریاست جموں و کشمیر کو بھی یہ آزادی دی گئی۔ اس کا حاکم مہاراج ہری سنگھ ایک ہندو ڈوگرہ تھا جبکہ ریاست کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ 85فیصد مسلمان تھے۔ یہ اختیار دیئے جانے سے پہلے مہاراجہ نے پاکستان سے  ایک معاہدہ کر رکھا تھا جس کے تحت کشمیر کی تجارت ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ بذریعہ پاکستان ہوتی تھی۔ کشمیری مسلمانوں کے پاکستانی شہریوں کے ساتھ تاریخی ، ثقافتی اور دینی رشتے صدیوں سے قائم تھے۔ اقدار مشترک تھیں۔ یقینی طور پر جب تشکیل پاکستان ہوئی تو جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہوا اور ایک ایسے خونی کھیل کا آغاز ہوا جو آج کرہ ارض پر سب سے بڑے المیے کو جنم دے چکا ہے۔ الحاق کا اختیار ملتے ہی مہاراجہ کی ڈوگرہ فوج نے ریاست میں مسلمانوں کی نسل کشی کا آغاز کردیا۔ جب قتل عام کی یہ خبریں سرحد کے پار پاکستان پہنچیں تو کشمیری اور صوبہ سرحد سے مجاہدین کے لشکر ریاست میں داخل ہوگئے۔ سرینگر چند میل دور رہ گیا تب مہاراجہ ہری سنگھ کو احساس ہو گیا کہ بازی اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس نے مبینہ طور پر ہندوستان سے مدد کی درخواست کر دی او راسی لمحے کے بعد کی تاریخ شہادت کی کہر میں لپٹی ہے۔ ہندوستان اپنی کہانی کہتا ہے جبکہ مورخ تاریخی حقائق سے اس داستان کو جھٹلاتے ہیں۔ اگلے 3دنوں کا قصہ کچھ یوں ہے: ہندوستانی وزیربرائے ریاستی امور وی پی مینن الحاق کی دستاویز پر دستخط کرانے کیلئے 26اکتوبرکی سہ پہر مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس جموں پہنچا اور ا س سے دستخط کرانے کے بعد دہلی واپس ہو گیا۔ 27اکتوبر کی صبح اس کا غذ پر گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے دستخط ثبت کر کے اسے قانونی حیثیت دیدی اور اسی دن    صبح 9بجے سرینگر کے ہوائی اڈے پر ہندوستانی فوج اتار دی گئی۔ مہاراجہ اسوقت جموں میں تھا۔ ہند وستان کی اس دروغ گوئی کو مورخین نے انتہائی خوبصورتی سے طشت ازبام کیا ہے۔ Kashmir a disputed legacyکے معروف برطانوی مصنف السٹر لیمب نے اپنی تحقیق سے چند ایسے حقائق واضح کئے ہیں جو اس الحاق پر ہندوستانی دعوؤں کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیری مجاہدین کو سرینگر کے باہر ڈیرے ڈالتے دیکھ کر مہاراجہ نے فوراً شہر چھو ڑکر جموں کی طرف فرار ہونے کا فیصلہ کیا چنانچہ 26اکتوبر کی صبح اس کا قافلہ روانہ ہوگیا۔ وی پی مینن کس وقت دستاویز مہاراجہ کے پاس لے کر پہنچا؟ یہ ہر گز واضح نہیں۔ السٹر لیمب کے مطابق بھارت کے وزیر برائے ریاستی امور کا یہ کہنا کہ وہ مہاراجہ کے دستخط لینے میں کامیاب ہو گیا تھا، دروغ بیانی ہے۔ 26کو سارا دن کشمیر کا موسم خراب رہا تھا اس لئے کسی پرواز کا دہلی سے اڑنا ممکن نہیں تھا۔ لیمب نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ 26اکتوبر کو تقریباً سارا دن وی پی مینن دہلی میں ہی گھومتا رہا تھا او راس کی ہندوستانی دارالحکومت میں موجودگی کے کئی چشم دید گواہ بھی  ہیں۔ گویا مہاراجہ ہری سنگھ تک 26اکتوبر کو کوئی دستاویز دستخطوں کیلئے نہیں پہنچ پائی تھی۔ گویا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے ایک غیر دستخط شدہ مسودہ رکھا گیا تھا اور یہ 27اکتوبر کو ہوا تھا  جب سرینگر کے ہوائی اڈے پر ہندوستانی فوج اتر چکی تھی۔ تو پھر ریاست جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج ایک حملہ آور بن کر اتری تھی۔ مصنفہ وکٹوریا شو فیلڈ کے مطابق ایسی کسی دستاویزِ الحاق کا وجود نہیں جس پر مہاراجہ کشمیر نے اپنے دستخط ثبت کئے ہوں۔ اپنی کتاب Kashmir in conflictمیں مصنفہ نے ہندوستانی بیانیے کو تحریر کیا ہے۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ وی پی مینن نے 26اکتوبر کی شام کو جموں میں مہاراجہ کے دستخط کرائے تھے۔لسٹر لیمب کے مطابق مینن کو کئی لوگوں نے 26اکتوبر کو سارا دن دہلی میں بھی دیکھا تھا! تاریخ کے صفحات بھی بڑے ستم پرور ہوتے ہیں ۔ کیسے کیسے ناممکنات او رمفروضوں کو اپنے شکم میں اتارتے ہیں۔ مہاراجہ کی دستخط شدہ دستاویز کا تو وجود ہی نہیں، ہم اس جعلی درخواست پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تحریر کا جائزہ لیتے ہیں۔ مہاراجہ کی التجا قبول کرتے ہوئے گورنر جنرل نے واضح الفاظ استعمال کئے ہیں۔ "یہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جونہی جموں و کشمیر میں امن و امان واپس آجائے او راس کی زمین حملہ آوروں سے پاک کر دی جائے تو الحاق کا معاملہ عوام کی رائے سے حل کیا جائے" ۔گویا لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان سے جموں و کشمیر کا الحاق مستقل تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ اس امر کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیا تھا اس کے فوراً بعد مہاراجہ کو اس کی گدی سے ہٹا کر اسکے بیٹے کرن سنگھ کو صدر ریاست بنا دیا گیا۔ حقائق کو چھپانے کیلئے ہری سنگھ کو سرینگر سے بمبئی جانے کا حکم دے دیا گیا۔ ا س پر بمبئی میں پہرے لگا دیئے گئے۔ ذرائع ابلاغ تک اس کی رسائی ممنوع قرار دی گئی یہاں تک کہ 1964ء میں بمبئی میں ہی حالت گمنامی میں اسے موت آئی ۔    کہیں وہ اصلی دستاویز نظر نہیں آتی جس پر مہاراجہ ہری سنگھ نے 75لاکھ سکہ رائج الوقت کے عوض خرید کرنیوالے جموں و کشمیر کو ہندوستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ 25سے 27اکتوبر 1947ء کے 3ایام میں فریب ، عیاری اور سنگدلی کا ایسا جال بُنا گیا جس میں کشمیریوں کی   نسلیں پھنس کر تڑپ رہی ہیں ۔ 27اکتوبر 1947ء کی صبح 9بجے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اترنے والے ہندوستانی فوج کے چند دستے اب 7لاکھ کی تعداد ہو چکے ہیں۔ کشمیریوں پر مظالم کی آخری انتہا بھی کر دی گئی ہے لیکن ہر شہید کی میت پاکستانی پرچم میں لپیٹی اور زمین کو اس کی امانت لوٹائی جاتی ہے۔ بہت بڑا ستم ہے، بہت بڑا ظلم ہے۔  
 

شیئر: