Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اجودھیا معاملہ:68سال سماعت کے بعد صرف 2فیصلے؟

نئی دہلی۔۔۔۔اجودھیاتنازع کیس میں پہلا فیصلہ 1849ء میں آیا تھا لیکن ابھی تک اس معاملے میں صرف 2فیصلے آئے۔ آج ایک اہم معاملے میں سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔جو تھوڑی دیر بعدجنوری 2019 تک ملتوی کردی گئی ۔ اجودھیا کی بابری مسجد و رام جنم بھومی کا پہلا تنازعہ1822ء میں فیض آباد کی عدالت کے کاغذات میں درج ہے۔اس معاملے میں فیض آباد عدالت نے 1849ء میں فیصلہ سنا یا تھا۔ 2010ء میں یہ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں پہنچا جب اس معاملے کے فریقین نے الٰہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اجودھیا کی بابری مسجد / رام جنم بھومی کا پہلا تنازعہ1822ء میں فیض آباد عدالت کے افسر حفیظ اللہ نے درج کرایا تھا۔ اسکے بعد 1855-56ء میں ایک مذہبی تنظیم نرموہیااکھاڑا والوں نے متنازعہ اراضی کو رام جنم بھومی بتاتے ہوئے اس پر قانونی حق کا دعویٰ دائر کیا۔مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق 1949ء میں فیض آباد سول کورٹ نے کہاتھا کہ تینوں فریق: مسلمان، ہندو اور نرموہی اکھاڑا اراضی کے ایک ، ایک تہائی کے حصے دار ہیں۔ تینوں کو ایک ایک تہائی زمین کی دیکھ بھال کا حق حاصل ہے۔ اس فیصلے کے 61سال بعد30ستمبر 2010ء کو الٰہ آباد ہائیکورٹ نے ایک دوسرے فیصلے میں تقریباً یہی بات دہراتے ہوئے فیصلہ دیا کہ277ایکڑ کی متنازعہ زمین کو 3برابر حصوں میں تقسیم کردیا جانا چاہئے۔ ان تینوں میں سے ایک حصہ ہندومہاسبھا کو مندر تعمیر کرنے کیلئے ،ایک حصہ نرموہی اکھاڑا اور ایک حصہ سنی وقف بورڈ کے حوالے کردیا جائے۔
مزید پڑھیں:- - -  -مشہور فکشن نگار پروفیسرقاضی عبدالستارانتقال کرگئے
ہندوستان کی تازہ ترین خبروں کے لئے ’’اردونیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں
 
رائے دیں، تبصرہ کریں

شیئر: