Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسئلہ فلسطین پر غیر متزلزل موقف

29اکتوبر2018پیر کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبارالبلاد کا اداریہ نذر قارئین
    مسئلہ فلسطین سے متعلق سعودی عرب کا جو موقف بانی مملکت شاہ عبدالعزیز ؒ نے لندن کی گول میز کانفرنس میں اپنایا تھا وہ آج بھی ہے، کل بھی رہے گا، اس حوالے سے کبھی کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی۔ مملکت نے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ عربوں کا بنیادی مسئلہ مانا ہے۔ آج بھی اس کا موقف یہی ہے۔
    سعودی عرب میڈرڈ کانفرنس سے لیکر روڈ میپ اور عرب امن فارمولے تک ہر شکل و صورت میں مسئلہ فلسطین کی گتھی سلجھانے کیلئے منعقد کی جانیوالی کانفرنسوں میں شریک رہا ہے۔ عرب امن فارمولا سعودی عرب ہی کا تجویزکیا ہوا ہے۔ مملکت کے مجوزہ امن فارمولے کو بیروت سربراہ کانفرنس نے عرب اسرائیلی تنازع کے حل کے طور پر اپنایا تھا۔
    سعودی عرب نے ہمیشہ اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ اسے مقبوضہ عرب علاقوں سے مکمل انخلاء کا مطالبہ کرنے والی بین الاقوامی قراردادیں نافذ کرنا ہونگی۔ سعودی عرب نے ہمیشہ عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم بند کرانے میں فوری مداخلت کرے۔ سعودی عرب نے بیت المقدس کو یہودی تشخص دینے کی ہر کوشش اور مقبوضہ فلسطین میں موجود مقدس اسلامی مقامات کو متاثر کرنے والے ہر اقدام کی مخالفت کی۔
    سعودی عرب نے فلسطینی عوام اور فلسطینی اتھارٹی کی اخلاقی اور مالی مدد کا شیوہ اپنا رکھا ہے ۔ علاوہ ازیں فلسطینی مصنوعات کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دے رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے متعدد منصوبوں کو فنڈ فراہم کررہا ہے۔ سعودی عرب نے قاہرہ میں منعقدہ عرب سربراہ کانفرنس کے موقع پر تجویز پیش کرکے الاقصیٰ فنڈ اور القدس انتفاضہ فنڈ قائم کرائے تھے۔ اقصیٰ فنڈ کیلئے 200ملین ڈالر اور القدس انتفاضہ فنڈ کیلئے 50ملین ڈالر پیش کئے تھے۔ سعودی عرب  فلسطینیوں کے مصائب ختم کرانے کیلئے جاری جدوجہد کی مدد کرتا رہا ہے اور جب تک فلسطینی بھائیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں مل جائیں گے اس وقت تک ان کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
مزید پڑھیں:- - -  -استنبول میں 4 ملکی سربراہ کانفرنس ، شام میں ترجیحات پر اختلاف ظاہر ہو گیا

شیئر: