Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاشقجی کے معاملے کو جان بوجھ کر اچھالا گیا

سام منسی ۔ الشرق الاوسط 
  یہ سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ جمال خاشقجی کے واقعہ کا سب سے زیادہ فائدہ ایران اور اسکے اتحادیوں کو پہنچا ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ خاشقجی کا واقعہ معمولی درجے کا ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جن لوگوں نے خاشقجی کے ساتھ کئے گئے سلوک کی مذمت کی وہ خدانخواستہ غلطی پر ہیں، نہیں ہر گز نہیں ۔کہنا دراصل یہ ہے کہ خطے کو اصل خطرہ نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے ۔ خاشقجی کے معاملے میں پڑ کر پورے خطے کو خطرات کے بھنور میں پھنسانے والے ایران کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ 
اس آفت زدہ خطے کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی ایک طرف تو سعودی عرب اور دوسری جانب امریکی خلیجی اور تیسری جانب امریکی سعودی تعلقات کے بہانے چھوٹے بڑے اسٹراٹیجک یا معمولی مفادات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ 
اس خطے کو ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے اس بات کا شکوہ ہے کہ مغربی دنیا خصوصاً امریکہ  ایران کے اثر و نفوذ میں توسیع سے آنکھیں موندے ہوئے ہے ۔ روس کے اثر و رسوخ میں اضافے کو نظر انداز کر رہا ہے ۔ اس کی وجہ سے پورا خطہ سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی سطحوں پر تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑ لگانے لگا ہے ۔ خلا بڑھتا جا رہا ہے ۔ 
یہ درست ہے کہ خاشقجی کے حوالے سے کیا کچھ ہوا اُسے منظر عام پر لایا جانا ضروری ہے ۔ اس میں ملوث افراد کا احتساب بھی ناگزیر ہے تاہم یہ مطالبہ ناقابل قبول ہے کہ تحقیقات اور احتساب کا عمل سنگدلی کے ساتھ ہو ۔ انصاف کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں ۔یہ پہلو بلاشبہ توجہ طلب ہے کہ انصاف کا مطالبہ ایک سے زیادہ ایسے فریقوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے جو ہزاروں مخالف سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالے اور آزادی پر قدغن لگائے ہوئے ہے ،مخالف میڈیا کا منہ بند کئے ہوئے ہیں ۔ ایسے فریقوں کی جانب سے فوری انصاف کے مطالبے عجیب ہی لگتے ہیں ۔ 
یہ مطالبہ ایسے ممالک کی جانب سے کیا جانا مضحکہ خیز ہے جو 3لاکھ 50ہزار افراد کے قتل اور 30لاکھ افراد کے زخمی ہونے اور 65لاکھ افراد کو دربدر کرنے اور لاکھوں افراد کو صرف ایک انسان کی خاطر تشدد اور جبر کے آتش فشاں کے حوالے کرنے سے آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ خاشقجی کے قتل کی مذمت ایسے ممالک کی جانب سے کیا جانا ایک طرح کا مذاق ہی ہے ۔ اسی طرح بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھی اس واقعہ کی مذمت ناقابل قبول اس لئے بن رہی ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری نہتے شہریوں کے خلاف کیمیکل اسلحہ کے استعمال کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہی ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مذکورہ جرائم کے ذمہ دار حکمرانوں سے ہاتھ بھی ملا رہی ہے اور ان حکمرانوں کے اقتدار کو دوام بخشنے کی مہم بھی چلا رہی ہے ۔ خاشقجی کے قتل کی مذمت اور انصاف کا مطالبہ ایسے نظام حکومت کے سفیر کی زبانی مذاق ہی کی بات ہو گی جس نے بے شمار صحافیوں اور سماجی اصلاح کے علمبرداروں کو جیل میں ڈال کر جبروتشدد کر کے سفر آخرت پر روانہ کر دیا۔ایسے عالم میں اس قسم کے نظام حکومت کے سفیر کا اقوام متحدہ یا ڈپٹی اسپیکر کی زبانی خاشقجی کے واقعے کی مذمت کرنا عجیب ہی لگتا ہے ۔ 
یہ منظر کس قدر ہنسانے اور رلانے والا ہے کہ صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے نظام کا سربراہ پوری دنیا میں آزاد میڈیا کی اہمیت کے گن گا رہا ہے ۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، وہ تو کئی عشروں سے مشرق وسطیٰ میں اپنی عظیم شہنشاہیت کے احیا کیلئے عسکری گروہ قائم کر کے ہر قانون اور ہر حق کو پامال کرنے میں لگا ہوا ہے ۔
عصر حاضر میں میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اچانک طوفانی شکل میں کوئی مہم چلاتا ہے اور بلبلے کی طرح بیٹھ جاتا ہے ۔ لبنان کی سطح پر ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ سمیر قیصر اور جبران توینی کی قتل کی وارداتوں پر سارا جہاں خاموش کیوں رہا؟سلیم اللوزی کے معاملے میں حق و انصاف کے علمبردار کہاں سو گئے تھے؟ 2009ء کے دوران ایرانی مصلح خاتون ندا آغا سلطان کے قتل پر ایرانیوں سے کسی نے پلٹ کر کیوں نہیں پوچھا ؟ شامیوں کا حق ہے کہ وہ مغربی میڈیا سے پوچھیں کہ ہمارے قضئے سے آنکھیں کیوں موندی گئیں ؟ عراق کے الزیدیوں کا حق بنتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کا سوال کریں ۔ 
افسوسناک سچ یہ ہے کہ مغربی میڈیا نے جس انداز سے خاشقجی کے قتل کے واقعہ کو اچھالا، اس کا محرک نہ تو انصاف تھا نہ انسانی زندگی سے پیار بلکہ حساب بے باک کرنے کی مذموم کوشش تھی۔جرم معمولی نہیں غیر معمولی ہے ۔ سعودی عرب اس حوالے سے جملہ حقائق منظر عام پر لاکر رہے گا ۔ تحقیقات کے نتائج کچھ بھی ہوں سعودی عرب پر اثر انداز ہوں گے ۔ مملکت کو اس تناظر میں بہت سارے امور پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔ 
 

شیئر: