جب سے ہند میں ہندو توا راج قائم ہو ا ہے، تب سے وہا ں کی اقلیتیں خاص کر مسلمان نہ صرف غیر محفوظ ہو کر رہے گئے بلکہ ان کی جان و مال لو ٹی جا رہی ہے، ان کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر کسی بھی جانب سے مسلمانو ںکے ہند میںقتل عام ، شدائدا ورجبر کے خلاف کسی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ امریکہ نے تو ہند میں انسانی حقوق کی سنگین خلا ف ورزی پرآنکھو ں پر پٹی باندھ رکھی ہے کیونکہ اس کے ہند کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں حالا نکہ ہر روز سوشل میڈیا پرہند میں اقلیتو ں کو بید ردی سے قتل کرنے، ان کے ہا تھ پا ؤں کاٹنے اور دیگرشدائد وجر ائم کی ویڈیو ہر روز وائرل ہو رہی ہیں مگر مجا ل ہے کہ کسی انسانی حقوق یا امر یکہ جیسے انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کے کانو ں پر جو ں رنگ جائے ۔
گزشتہ چند روز سے ہندکے شمالی علاقوں اور دوسرے شہر و ں میںمسلما نو ں کو لا ٹھی ، چاقو، چھرے وغیر ہ سے مجروح کر نے کی ویڈیو وائرل ہو ئیں۔ ایک ویڈیو میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کس طر ح ایک نو جوان کے پہلے چھری سے کان کا ٹے گئے پھر اس کو ذبح کیا گیا۔ امریکہ کیو ں خامو ش ہے ، ا س لیے کہ اس کو اپنے مفادات پیا رے ہیں ۔ ہند میں آئندہ6 ما ہ میں عام انتخابا ت ہو نے والے ہیں اور ہندوستانی لیڈران اس کی تیا ری پا کستان دشمنی اور مسلما نو ں سمیت اقلیتوں پرظلم کی بنیا دپر کر چکے ہیں ۔ حکمران جماعت کے لیڈربابری مسجد کی زمین پر قبضہ کے لیے اب یہ مہم چلا رہے ہیں کہ سپر یم کو رٹ اجودھیا کی بابری مسجد کی زمین کا فیصلہ نہیں کر سکتی چنا نچہ یو پی کی سرکا ر ایک حکم جا ری کر کے یہ زمین ہند و ؤں کے حوالے کر دے تاکہ عام انتخابات تک مندر کی تعمیر کی بنیا د رکھی دی جائے ۔ یہ ہندکے ہند و تواکی چالبازیا ں ہیں ۔اکثر ویڈیوجو وائرل ہو رہی ہیں ان میں بچو ں اور خواتین کی چیخ وپکا ر کی آوازیںآتی ہیں کہ ان پر ہند وٹوٹ پڑے ہیں۔ ڈنڈوں اور چھرو ں سے مجر وح کر رہے ہیں۔مسلما نو ں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے، اس کا اندازہ یو ں لگایا جا سکتا ہے کہ ممبئی ایئر پو رٹ پر ایک مسلما ن نو جوان نے جو منگلور سے ممبئی پہنچا تو اس نے جب اپنا بیگ وصول کیا تو دیکھا کہ اس کا قفل ٹوٹا ہو ا ہے۔ کھول کر دیکھا تو اس میں قابل اعتراض اشیاء بر آمد ہوئیں جن چاقو ، رسی ، چھریاں دیگر تخریب کا ری کا سامان شامل تھا جس کی اس نے فوری طورپر ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کو اطلا ع دی کہ اس کے بیگ کا قفل توڑ کر اس میں تخریب کا ری کا سامان رکھ دیا گیا ہے ۔ایسا کر نے کا مقصد نو جو ان جو مسلمان ہے کو دہشتگردی میں پھنسوانا مقصود تھا ، یعنی اب مسلمانوں کے لیے ہند میں سفر کرنا بھی محال ہو گیا ہے ۔
مو دی سر کا ر کے چہیتے وزیر اعلیٰ یو گی سرکا ر نے ایک کا رنامہ یہ انجا م دیا ہے کہ اکبر الٰہ آبادی کے شہر بے مثل کا نا م بدل کر پریاگراج رکھ دیا ہے۔ الٰہ آباد 1570ء میںمغل شہنشاہ اکبر نے دریا ئے گنگا اور جمنا کے سنگم پر بسایا تھا ، شہنشا ہ جہا نگیر کے دور میں یہ اتر پر دیش کا صوبائی دارالحکومت بنا ۔ 1857کی جنگ آزادی میں اس شہر سے لیاقت علی خان نامی مردحر کی قیا دت میں انگریز حکومت کے خلا ف آزادی کی جنگ کا آغاز ہو ا ۔ یہ شہر مسلمانوں کی جد وجہد سے مر صع ہے ۔ہند کے ترقی یا فتہ شہر وں میں شمارہوتا ہے ۔ممتاز شاعر اکبر الٰہ آبادی نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ الٰہ آباد میں تودو ہی چیزیں ہیں: ایک امرود اور دوسرے اکبر الٰہ آبادی باقی تو کچھ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی باعث شہر ت یہی ہیں ۔ علا وہ ازیں الٰہ آباد میں ریا ست اتر پر دیش کی اعلیٰ عدالت کا ہیڈکو ارٹر ہے جو الٰہ آباد ہائی کو رٹ کہلا تی ہے ۔ الٰہ آباد شہر سے کوئی 30 کو س کے فاصلے پر پر یاگراج ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے اور وہا ں ایک پریاگراج کے نا م سے ایک بڑا ریلو ے اسٹیشن بھی مو جو د ہے اور یہ شہر الٰہ آباد کی تحصیل کا درجہ رکھتا ہے ، اس طر ح اب ایک نا م کے دوشہر ہو گئے ہیں ، ممکن ہے کہ اصل پریاگراج کو سابقہ الٰہ آباد میں ضم کر دیا جا ئے۔ اس سے پہلے بھی ہندمیں کئی شہر و ں بلکہ عالمی سطح پر مشہو ر شہر و ں کے نا م تبدیل کیے گئے، ان میں بمبئی کا ممبئی کیا گیا، مدراس کو چنئی کر دیا گیا مگر اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو ا تھا البتہ اس وقت کی حکومت تنقید کا نشانہ بنی تھی مگر الٰہ آباد کا نا م نفرت وعنا د میںتبدیل کیا گیا ہے کیو نکہ الٰہ آباد کا مطلب ہے اللہ والوں کا بسایا ہوا ۔
مو دی سرکا ر جب سے ہند میں برسراقتدار آئی ہے ہندوستانی آئین کی دھجیا ں اڑا رہی ہے۔ اس نے ہند کا سیکو لر تشخص مٹا کررکھ دیا اور اس کو ایک ہندوریا ست میں تبد یل کر دیا ہے ۔ آج ہند میں مسلمانو ں ، عیسائیو ں ، سکھو ں اور بت مت پر جو بیت رہی ہے اُن کے حقوق کے لیے کوئی بین الاقوامی ادارے آواز تک بلند نہیں کر رہے ۔ ہندکے سابق ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر)ضمیر شا ہ کی تازہ کتا ب منظرعام پر آئی ہے جس نے ہندکی ریا ست گجر ات میں جب مسلما نو ں کا قتل عا م ہو اتھا اور اس وقت مو دی گجر ات کے وزیر اعلیٰ تھے کا چہر ہ دکھا دیا ہے کہ ریا ست گجر ات میں ان فسادات کو مٹانے کے لیے ضمیر شاہ کی ڈیو ٹی لگی تھی ۔اس وقت وہ میجر جنر ل تھے۔ انھوں نے کتا ب میں بتایا ہے کہ مو دی کی صوبائی حکومت نے انھیں اور ان کی بریگیڈ کودو دن تک فساد زدہ علا قوں میںجا نے نہیں دیا ۔جب وہ فساد زدہ علا قوں میںداخل ہوئے تودیکھا کہ پو لیس دہشت گردو ں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ ان کو اقلیتو ں کی بستیوں کا محاصر ہ کر نے میں پوری مد د دے رہی ہے۔ جب مسلما ن گھروں میں محصور ہو جا تے ہیں تو پولیس ان دہشت گردوں پر گولی چلا نے کی بجائے مسلمانو ں کے گھر و ں کی کھڑیو ں کے اندر کی طرف فائرنگ کر تی ہے ۔اسی طرح ان دہشت گردو ں نے ہند کے ایک فوجی بریگیڈیر کے سرکا ری گھر کو آگ لگا دی کیو نکہ وہ فوجی افسر مسلما ن تھا ۔